متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو جاؤ مرو شور مچاتے کیوں ہو
"اگر آپ ایک مرد کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ یقینا کسی فرد واحد کی تعلیم کے ہی متمنی و خواستگار ہیں مگر جب آپ کسی صنف نازک کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک پوری قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہوتے ہیں۔"
خواتین کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے تہذیب کا گہوارہ ہوتی ہیں اور ہر شعبے میں ان کی شراکت بہت اہم ہے۔ یہی خواتین ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو قوم و ملک کے لیے باعث فخر بنتے ہیں۔ اگر سادہ لفظوں میں کہیں تو عورت ہی کسی سماج کی معمار و قوم کی مستقل بنیاد ہوتی ہے۔
تعلیم کو اسلام نے بھی اور دنیاوی آئینوں نے بھی کسی انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے مگر آج بھی پڑھے لکھے سماج میں تعلیم نسواں کا فقدان دیکھ کر لگتا ہے کہ خواتین کو ابھی بھی اس بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے جس سے بد قسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ دیہی علاقوں یا پھرقبائلی طبقات میں خواتین کا تعلیمی تناسب منفی کے قریب نظر آتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے سماج کے لیے بھی اور سماج کے نام پر روٹیاں سیکنے والے ٹھیکیداروں کے لیے بھی کہ آخر کیوں ایک طبقہ لگاتار پچھڑتاچلا جا رہا ہے۔ایک عورت کی تعلیم سے دوری کی وجہ سے ایک قوم و سماج کی متناسب حیثیت سمیت کئی دیگر معاملات پر کئی طرح کے منفی اثرات پڑھتے ہیں۔ ناخواندہ خواتین معاشرے کو بھی متاثر کرتی ہیں اور دوسری زندگیوں کو بھی۔ اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو"عورت کی تعلیم ماحول کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے"
اس وقت ہم اپنی ذاتی پہچان کھو کر آئین ہند کے سائے تلے جی رہے ہیں اور دستور ہند بھی 14 سال تک کے لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو مفت ابتدائی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے اور حکومت کی طرف سے بہت سی سکیمیں جیسے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ، بالیکا سمریدھی یوجنا ، سکنیا سمریدھی یوجنا ، سی بی ایس ای اڈان اسکیم ، دھنیالکشمی اسکیم بنا کر لڑکیوں کو تعلیم دینے کی بات کی گئی مگر سب بے سود ہی نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم خود تعاون نہیں کرتے کیونکہ ہمیں شعور نہیں ہے۔ اس وقت کئی تحریکیں چل رہی ہیں مگر وقت کی ضرورت بھی ہے کہ ان تحریکوں میں خواتین نمائندگی کریں اور آگے آئیں کیونکہ عالمی سطح پر خواتین کی آواز کچھ زیادہ سنی جاتی ہے جس کا واضح ثبوت حکومت ہند کی طرف سے لائے گے متنازعہ شہریت ترمیمی بل پر خواتین کے سامنے آنے سے ملا بھی ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیہی علاقوںکے والدین کافی حد تک بچیوںکی تعلیم میں سنجیدہ کیوں نہیں ہیں۔اس کی کئی ساری وجوہات ہوسکتی ہیںجن میں روایتی طرز فکر ، کم سطح کی تعلیم ، ناقص فہم، آگہی کا فقدان وغیرہ مگر دیہی علاقوں میں خواتین کی تعلیمی حیثیت کے لئے بجلی کی کمی ، صحت کی ناقص سہولیات ، نقل و حمل کی ناقص سہولیات سمیت دیگر مسائل بھی ذمہ دار ہیں۔ دیہی علاقوں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بیٹیوں کی تعلیم صرف پیسوں کی بربادی ہے ، کیونکہ انہیں شادی کے بعد اپنے شوہر کے اہل خانہ کے ساتھ رہنا پڑے گا اور بڑھاپے میں اپنے والدین کا اثاثہ ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ ان کی روایتی طرز فکر ان کی بیٹیوں کی تعلیم پر بھی پابندی ہے۔ صرف 13-15 سال کی عمر حاصل کرنے کے بعد انہیں لگتا ہے کہ لڑکیوں کو اسکول بھیجنا ان کے لئے غیر محفوظ ثابت ہوسکتا ہے۔ تعلیم یافتہ اور سمجھدار والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے لئے اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں ، لیکن دیہی علاقوں میں والدین میں تعلیم کم ہوتی ہے اور اس کے لئے ان کی بیٹیاں بہت تکلیف اٹھاتی ہیں۔ سرکاری اسکیموں اور سہولیات کے بارے میں آگاہی کا فقدان بھی ہوتا ہے جو معاشی طور پر آڑے آتا ہے۔ تعلیم میں عدم مساوات بھی انتہائی اہم ہے۔ اگر مالی پابندیاں بیٹی بیٹے کے درمیان تعلیم کے لیے انتخاب کرنے پر مجبور کرتی ہیں تو عام طور پر بیٹے کا انتخاب کیا جائے گا۔ وہ بیٹے کو بیٹیوں سے بالاتر سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ بچی کی پیدائش بھی خوشی کا سبب نہیں ہوتی۔ حالانکہ ہمارے مذہب نے تو "لڑکیوں کو تعلیم دلانا غربت کو کم کرنا بتایا ہے"۔
اب اگر دوسرے زاویہ سے سوچا جائے تو والدین کی فکر مندی بھی تب مناسب لگتی ہے جب ایوانوں میں بیٹھنے والے اور سکیمیں بنانے والے خود ہی بیٹی کی عصمت تار تار کرتے ہیں لیکن پھر اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو تعلیم کو ایک طرف چھوڑ کر اپنے مال مویشیوں کو چرانے گئی معصوم آصفہ کی عصمت کو بھی تو درندہ صفت لوگوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیا اور پھر ہم نے ایک اور عجیب منظر دیکھا جب ہمارے ہی سماج کا حصہ رہنے والے کچھ ظالموں نے ان لوگوں کے بچاؤ میں یاترائیں نکالیں ۔یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ ہمارا نظام ِتعلیم اس قدر گرا ہوا ہے کہ وہاں اخلاقیات کا نام و نشان نہیں ہے اور ہم صرف ہوس کی پٹی باندھے سب کو دھندلی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اگرچہ اب دیہی علاقوں میں خواتین کی خواندگی کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے ، لیکن انہیں وہ تعلیم میسر نہیں جس کا جدید دور تقاضا کرتا ہے۔ جسمانی موجودگی ریکارڈ کی گئی ہے تاہم ان کے عملی علم اور کارکردگی میں کوئی نتیجہ خیز سدھار دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ دیہی اسکولوں میں کوئی لیبارٹری نہیں ، کوئی ادبی نظام موجود نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔
ہماری ریاست جموں و کشمیر تاریخ کے خطرناک ترین دور سے گزر رہی ہے کیونکہ ہماری شناخت کو مسخ کر کے ہمیں ایک غیر مانوس ماحول میں ڈال دیا گیا ۔ہماری سرحدوں پر ہندوپاک کی افواج اپنی اپنی بالادستی دکھانے کے لیے توپوں کی گھن گرج سے ہماری زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم متحد ہو جائیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تعلیم کو اپنا مقدر بنائیں گے ورنہ فسطائی طاقتیں ہمیں ہمیشہ کی طرح ذاتوں اور نسلوں میں بانٹ کر اپنے مفادات حاصل کرتی رہیں گی اور ایک دن ایسا آئیگا جب ہم دنیا عالم کے نقشے سے مٹ جائیں گے۔ اس لیے ابھی بھی وقت ہے بچ جائیں ورنہ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگے گا ۔
٭٭٭٭٭