سید مصطفیٰ احمد
نئی ریاستی حکومت کا تعلیمی سیشن کا تبدیل کرکے روایتی طرز پر لاناکافیصلہ تو کب کا صادر ہوچکا ہے اورجس پر سرکاری مہر بھی لگ چکی ہے۔چنانچہ تعلیمی اداروں نے ایک ہی ہفتے میں اپنے آپ کو نومبر میں لئے جانے والے امتحانات کے لیے تیار کیا،نصاب میں کٹوتی کرکے اول جماعت سے نویں جماعت تک امتحانات کا انعقاد کرکے ،رزلٹ (نتائج ) کے بعد نئی کلاسیں بھی شروع کردیں۔ ظاہر ہے کہ کشمیری طلاب ۲۰۱۹ سے افراتفری کے عالم میں پڑھتے چلےآ رہے ہیں۔آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد، کووڈ ۱۹ کی مار اور پھر ۲۰۲۲ ءمیں مرکزی حکومت کا جموں و کشمیر کا تعلیمی سیشن تبدیل کرنا جیسی حرکتوں کی وجہ سے یہاں کا تعلیمی نظام کی درہم برہم ہوکرٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا ہے۔ پچھلے پانچ سال سے نصف سے زیادہ طلاب کو برائے نام کی پڑھائی نصیب ہوئی۔گھر پر بیٹھ کر اور گوگل کے جوابات تحریر کرکے بیشتر طلباء آج دسویں اور بارویں جماعت کے امتحانات بھی پاس کرچکے ہیں۔ صرف formalities کی خاطر وہ اگلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں۔ رہی پڑھائی وہ تو بیشتر طلباء کے نصیب میں رہی ہی نہیں۔ دسویں جماعت کے طالب علم کو آٹھویں جماعت کے ریاضی کے سوالات سمجھ میں نہیں آتے ہیں، total surface area اور curved surface area کے بیچ میں کیا فرق ہوتا ہے، دسویں جماعت کا بچہ بولنے سے قاصر ہے۔ Trigonometry جو دسویں کلاس کی ریاضی کتاب کا ایک اہم باب ہےجو بیشتر طلباء کے لئے خوف کا سامان مہیا پیدا کرتا ہے۔ اپنے الفاظ میں لکھنے کی صلاحیت سو میں سے دس فیصد طلاب میں ہی پائی جاتی ہے۔ باقی طلاب لکیر کے فقیرکے مصداق کسی اور کے لکھے ہوئے جوابات کو رَٹا مارکر صد فیصد نمبرات حاصل کرتے ہیں۔
بات کو مختصر کرتے ہوئے اب جو ماضی میں ہوا،سو ہوا۔ جس کو جو کرنا تھا اُس نے کیا اورجس کو جو بولنا تھا، اُس نے بول دیا۔ اب ماضی کو کریدنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے اب وقت کی ضرورت ہے کہ مستقبل میںماضی کے تعلیمی نظام میں سُدھار لانے کی بھرپور کوششیں کی جائے۔ سب سے پہلے جو کام کرنے کا ہے، وہ یہ کہ تعلیمی نظام کو ہر قسم کی افراتفری سے پاک رکھا جائے۔سیاسی افراتفری کے علاوہ معاشی افراتفری سے نظام ِتعلیم کو ہر ممکن طریقے سے دور رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم پر معمور اساتذہ کو صرف پڑھانے تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ ان سے غیر درسی کام کروانا آخرکار گھاٹے کاسودا ہی ثابت ہوتا ہے۔ ایک اُستاد جب پڑھائی کے کمرے کو چھوڑ کر دوسرے غیر درسی کاموں میں زبردستی مگن ہوجاتا ہے تو پھر تعلیم اور دوسرے کاموں کے درمیان بیلنس رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ،جس کی وجہ سے زیر تعلیم طلاب پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔مزید برآں کتابوں کا معیار بڑھانا سب سے اہم ضرورت ہے۔ ڈیزائن سے لے کر موجودہ زمانے کے مطابق کتابوں کو ہم آہنگ کروانا سب کا فرض بنتا ہے Editing، Cross-examination اور language priorities کو معیاری سطح پر لانا ضروری ہے۔ Typical اور ornamental زبان کو سلیس لیکن اثردار پیرائے میں ڈالنا ضروری ہے۔ غیر جانبدارانہ سوچ کی عکاس ہر کتاب میں چھلکنی چاہیے۔تاریخ سے لے کر معیشت کے ماہرین کی تجاویز لے کر unbiased اور historically acceptable approach کو گلے لگا کر تاریخ کے مضمون کو مزےدار اور شاندار subject بنایا جائے۔ لمبے چوڑے سوالات اور جوابات کو حصوں میں بانٹ کر طلباء کے لئے آسانیاں فراہم کی جائیں۔ آخر پر معیاری میگزین اور رسالوں کا مطالعہ کرنے کا شوق طلباء میں پیدا کیا جائے۔ یہ اس لئے کیونکہ مسابقتی امتحانات میں معیاری رسائل کا رول بہت زیادہ اہم ہیں۔ Tell Me Why، Wisdom، The Hindu Publications کے تحت چھپنے والے میگزین، Science Refresher،English Today، Knowledge Quest،بچوں کی دنیا،اردو دنیا،آج کل،خواتین دنیا،Competition Success Review، Manorama Yearly Book مرکزی حکومت کی طرف سے چھپنے والی سالانہ کتاب، وغیرہ جیسے میگزین اور رسالوں سے طلباء کو روشناس کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ Disha Publications کی طرف سے English Essays پر چھاپی گئی کتابوں کا نصاب میں introduce کرنا ایک خوش آئند کام ہوسکتا ہے۔ ڈپارٹمنٹ اف ایجوکیشن کے لئے میری یہ تجویز بھی ہے کہ ہر سال پچھلے سال کے پرچوں کے جوابات ایک کتاب کی شکل میں چھاپا کرے۔ اس سے طلباء کو معیاری سوالات لکھنے کی عادت پڑجائے گی۔ Evaluation کے طریقوں کو طلباء کو سمجھایا جائے۔ ان جوابات کے زیادہ مارکس دے جائیں جو ایک طالب علم خود سے بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ تخلیقات پر مبنی سوالات امتحانات میں پوچھے جائیں، جس سے طالب علم میں critical thinking اور looking above the surface کا مادہ پیدا ہوجائے۔
امید یہی کی جاسکتی ہے کہ موجودہ نئی سرکار ان تجاویز پر غور کرے گی اور جو کوئی تجویز قابل قبول ہوگی ،اُس پر جلد از جلد عمل پیرا ہوجائے گی۔ زبانوں پر زیادہ زور دیا جائےکیونکہ اردو کی نصابی کتابوں کو update کرنا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ دسویں جماعت کی اردو کتاب آج بھی بھول بھلیاں کی دنیا میں بھٹک رہی ہے۔ موجودہ زمانے کی ضروریات سے کوسوں دور اردو کی اس نصابی کتاب کو تلفظ کی درستگی کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ کا جامہ پہنایا جائے۔ معیاری مضامین کا انتخاب کرکے اس کتاب کی شان بڑھانے کی ضرورت ہے۔ عشقیہ دنیا کے ساتھ ساتھ زندگی کی حقیقتوں سے اس کتاب کو مزّین کرنا ہوگا۔ داستان پر نوٹ لکھتے لکھتے طلباء کی بھی داستانیں بنتے گئے ہیں۔ اس بےباکی کے لئے میں معذرت چاہتا ہوں۔ سب کو نظام تعلیم میں سدھار لانے کی فکر کرنی چاہیے۔ علم قومی ورثہ ہے،اس میں جتنی جان ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی اس کی رگوں میں خون زیادہ پھرتی سے دوڑنا شروع کرے گا۔ Obsolete اور window dressing سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں پھینکی جاسکتی ہے۔ گنے چُنے لوگ ہی سہی لیکن یہی لوگ اب جاگنے لگے ہیں۔ اب تبدیلیاں horizon پر دکھائی دے رہی ہیں۔ وقت کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے اب ہم کو بھی Generative AI اور Isaac Asimov اور HG Wells کے علاوہ Arthur C.Clarke کے مشاہدات کا مطالعہ کرکے کم از کم آنے والے مختلف مستقبل کے ساتھ لڑنے کی ہمت رکھیں۔ آنے والامستقبل چیلنجز کا پہاڑ کھڑے ہوئے بیٹھاہے۔ وہ چیلنجز عقل اور ٹیکنالوجی کے اونچے معیارات کےمتقاضی ہیں۔ میں کتنا لکھو ںاور کتنا چھوڑوں۔ اس لئے اپنی بات کو اختتام کرتے ہوئے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں خاطرخواہ تبدیلیاں رونما ہوں۔
(رابطہ۔7006031540)