شبیر احمد مصباحی۔دراس
کمزور بچوں کو کیسے اس قابل بنائیں کہ وہ بھی تھوڑا بہت سیکھ کر پڑھنے لکھنے کے قابل بن جائیں۔اس سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ کام کریں کہ بحیثیت معلم یا معلمہ آپ اس بچے کی کمیوں کی نشاندہی کریں گے کہ اس کو دِقت کہاں پر آرہی ہے۔اس سلسلے میں میری آئندہ کی چند سطریں آپ کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔بچے کو پڑھنے تو آرہا ہے لیکن ہر سطر میں چار سے پانچ غلطیاں کر رہا ہے یا وہ مکمل طور سے پڑھ ہی نہیں پارہا ہے۔ان دونوں حالتوں پر آپ سب سے پہلے اُسے حروف کی اور حروف کو ایک دوسرے سے ملانے پر کیسے شکلیں بنتی ہیں ،اس کی پہچان کرائیں گے کیوں کہ حروف کی پہچان اور مشترکہ حروف کی بناوٹ سے ناشناسی ان معصوموں کو مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بچہ پڑھنے میں تو ٹھیک ہے لیکن اسی سبق کو زبانی لکھ نہیں پارہا ہے تو اس کمی کو دور کرنے کےلیے معلمین کو چاہیے کہ نقل و اِملا کی مشق مسلسل کرائی جائے۔یاد رہے اس سلسلے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایسے بچوں سے عبارت خوانی خوب کرائیں گے تو اس موخرالذکر کمی پر بہت جلد قابو پایا جاسکتا ہے کہ عبارت خوانی سے حروف و الفاظ کی دُرست ادائیگی کرائی جاسکتی ہے اور دُرست ادائیگی یا ہجہ سے ایسے بچوں کا املا جلد درست ہوگا۔بچے اگر ذہنی طور سے کمزور نہ ہوں تو ایک فرض شناس معلم یا معلمہ کےلیے ایسے بچوں پر قابو پانا کوئی دِقت طلب امر نہیں ہوتا، مشکل وہاں پیش آتی ہے، جہاں بچے ذہنی طور سے کمزور ہوں، فی الحال ہمارا موضوع قدرتی طور معذور بچے نہیں ہیں ،اس لیے اس موضوع پر پھر کبھی اپنی بات تفصیل کے ساتھ رکھیں گے۔تعلیمی طورپرکمزور بچوں کی شرح زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جب ہم ان وجوہات پر غور کرتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ایک ہی لاٹھی سے پوری جماعت کو ہانکنے کا جو معمول ہم نے بنایا ہوا ہے، یہ معمول بہت سارے معصوں کے مستقبل کو تاریک بنانے کا کام کر رہا ہے۔معلمین کا اس میں قصور کم اور سسٹم اور ایوان بالا کے نمائندے اس کے لئے زیادہ ذمہ دار ہیں۔کیوں کہ نصاب تعلیم کی پابندی کے اس سسٹم میں کمزور بچوں کےلیے گنجائش کم یا بالکل ہی نہیں ہے۔اس لئے یہ سسٹم ختم ہوجائے تو کئی بچوں کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔جہاں نصاب کی قید نہ ہو یا گنجائش ہو تو مختلف طبقات یا سیکشن بنا کر آپ ان کو گروپس میں بانٹ سکتے ہیں اور ضرورت کے مطابق ہر سیکشن کے بچوں کی قوت برداشت کے مطابق ترتیب وار اِن کمیوں کو دور کرسکتے ہیں۔ہاں! اس سلسلے میں معلمین کو تھوڑا برداشت کا مادہ ہونا ضروری ہے کہ ایسے بچے ایک پودے کی طرح ہوتے ہیں، جس کو بہت زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ،بہت پیار سے ہی سینچ کر ہی آپ اسے ایک پھل دار پیڑ بنا سکتے ہیں نہ کہ راتوں رات ہی وہ پھل دار درخت بنے گا۔اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایسے بچوں کو کبھی کبھی آپ کی حوصلہ افزائی کی سخت ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔اس کو سمجھانا ہے کہ وہ کوتاہی کہاں پر کر رہا ہے اور اس کوتاہی کی وجہ سے کتنی بڑی خرابی پیدا ہورہی ہے ۔اس کو آپ یوں بھی سمجھا سکتے ہیں کہ اگر وہ اس چھوٹی سی غلطی کو نہ کرتا تو یہ جملہ کتنا خوبصورت بن جاتا یا یہ جملہ درست بن جاتا۔اس درمیان ایک مسکراہٹ کےذریعے سمجھانا ہے کہ آپ کے ایک نقطے نے اس جملے کا مطلب یوں سے یوں کر دیا ،یہاں پر مزید ایک مسکراہٹ کے ساتھ ایسا بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے جو لفظ لکھا ہے، اس نے ساری تحریر کی مٹی پلید کردی ۔یہی پر اگر اس نے ستر فیصد ٹھیک لکھا ہے تو آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج تو آپ نے دل جیت لیا۔واقعی آپ میں سیکھنے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، بس آپ ہی توجہ نہیں دیتے ہو۔یا اس طرح مسلسل کاکردگی سے آپ بہت جلد مجھ سے بھی بہتر کرسکتے ہو۔اگر ساتھ ہی اس نےتھوڑا بہت خوشخط لکھا ہے تو آپ لاجواب ،ماشاء اللہ کہہ سکتے یا کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے تو کمپیوٹر جیسا لکھا ہے۔یہ مذکورہ جملے اگر چہ عام سے جملے ہیں مگر ان چھوٹے بچوں کےلیے یہ جملے تیربا ہدف کے مترادف ہوتے ہیں ۔وہ نفسیاتی طور اُستاد کےمنہ سے ایسے جملے سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسے معمولی کلمات سے وہ اپنے اندر ایک نئی اُمنگ پیدا کرلیتے ہیں اور معمول کی کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔اس لیے اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ ایسے الفاظ کو معمولی نہ گردانتے ہوئے اپنی کلاسوں کے دوران ایسے چند جملے ترتیب دیں اور زبان زد عام رکھ لیں۔چونکہ ابتدائی جماعتوں میں تعلیم دینا کوئی عام بات نہیں ہے کیوں کہ بچہ ایک پتھر کے مانند ہے ،جس کی تراش خراش انہی ابتدائی جماعتوں میں ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اس نازک وقت میں ان بچوں کی تمام تر کوتاہیوں پر قابو پا کر ہم انہیں پتھر سے انسان بنانے میں تھوڑی بہت مدد کرسکتے ہیں۔
رابطہ۔8082713692
[email protected]