ملک کے تعلیمی ادارے بھاجپا حکومت کے نشانے پرکیوںہیں؟ آخر کار کیا وجہ ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے لے کر وزارت تعلیم تک کیوں ہلہ بولے ہوئے ہیں؟ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میںسرکار کی طرف سے مداخلت کیوںہورہی ہے؟ وزیراعظم نریندرمودی نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو آکسفورڈ یونیورسٹی بنانے کے پیچھے کاراز کیاہے؟ الہ آباد یونیورسٹی میں جے این یو جیسے ہنگامے کیوں ہورہے ہیں؟ پوناکے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی چیوٹ میں آر ایس ایس کی گجنیدر چوہان کو کیوں بھیجاگیا؟ علی گڑھ یونیورسٹی کے مسلم اقلیتی کردار پر کیوںحملہ کیاگیا؟ جامعہ ملیہ اسلامیہ حکومت کے نشانے پر کیوںہے؟ تمام تعلیمی اداروں میںا ٓر ایس ایس اور مودی سرکار کے مفاد کی محافظ بن کر اے بی وی پی کیوںسامنے آرہی ہے؟ ان تمام سوالوں کاجواب ہر کوئی اپنے انداز میں سوچ رہاہے مگر ایک بات طے ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں آر ایس ایس کی ہدایات پر چلنے والی مودی سرکار کی مداخلت خواہ مخواہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے طویل ا لمدت پروگرام ہے۔ دراصل آر ایس ایس ایک نظریاتی ہندتوتنظیم ہے جو پانچ سالہ پروگرام لے کر نہیں چلتی بلکہ پانچ سو سالہ منصوبہ پر کام کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سال 2020میں ہندوستان کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی والا ملک ہوگا۔ دُنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہمارے ملک میںہوگی۔ اس ملک پر قبضہ کرنے کے لئے ملک کے دل اور دماغ پر قبضہ لازمی ہے اور انسانی دماغ تک پہنچنے کا راستہ درس گاہوں سے ہوکر ہی جاتاہے۔ یہی سبب ہے کہ آرا یس ایس نے تعلیمی اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس وقت ملک کے جوتعلیمی ادارے سنگھ کے نشانے پر ہیں،وہ محض کوئی اتفاق نہیںہے ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے لے کر جواہرلال نہرو یونیورسٹی تک جتنے ناقابل برداشت واقعات رونماہوئے ، وہ پوری سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو ئے۔ آر ایس ایس جانتی ہے کہ بھارت آئینی طور سیکولر ملک ہے اور فی الحال اس کا سیکولر کردار ختم کرنا ممکن نہیں کیونکہ ملک کے عوام کی ذہنی ساخت بھی سیکولر ہے۔ ایسے میں جب تک تعلیمی اداروں پر قبضہ نہ کیا جائے تب تک ملک کوہندوراشٹر نہیںبنایا جاسکتا۔ آج آ را یس ایس کے زیر حملہ اداروں میں سرفہرست وہ ادارے ہیںجہاں کمیونسٹوں کا کنٹرول رہاہے یا پھر جو اقلیتی ادارے ہیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ایف ٹی آئی آئی پر ہمیشہ سے کمیونسٹ نظریات حاوی رہے ہیں۔ لہٰذاایف ٹی آئی آئی میں آ ر ایس ایس کے گجیندر چوہان کو بھیجا گیا، اسی طرح جے این یو پر حملہ زنی کے پیچھے بھی یہی سبب رہا۔ یہاں سبرامنیم سوامی جیسے متنازعہ اورمشکوک شخص کو وائس چانسلر بناکر بھیجنے کی بات کہی گئی تھی مگرا س کے لئے حالات سازگار نہ ہونے کے سبب یہ فیصلہ ملتوی کرناپڑا۔
نوجوانوںپر سنگھ پریوار کی نظر کیوں اٹکی ہے؟ دُنیا بھرمیں طلبہ ہی بڑے بڑے انقلاب لائے ہیں اور تعلیمی ادارے ہی انقلابات کی جنم بھومی ر ہے ہیں۔ تاریخ ِعالم کو چھوڑ کر اگر ہم بھارت کے ہی حالات پرنظرڈالیں تومحسوس ہوتاہے کہ ہماری تاریخ میں طلبہ اور نوجوانوں نے ہمیشہ اہم کردار نبھایا۔ تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے مجاہدین اکثریت نوجوانوںپر ہی مشتمل تھی، جوانوںنے ہی ملک کی آزادی کے لئے پھانسی کے پھندے چومے تھے، بھگت سنگھ اشفاق اللہ اور منگل پانڈے کوئی بُزرگ نہ تھے۔ ہماری ملکی آبادی کی اکثریت آج بھی نوجوان ہے اور آنے والے انتخابات میں ووٹروں کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہی ہوگی، اس لئے محض اپنے سیاست مقاصد کے لئے پریوار انوجوانوں کے دل دوماغ پرقبضہ جمانے کی کوشش میں ہے۔ اپنے اسی منصوبے کے تحت سنگھ نے تعلیمی اداروں پر قبضے کا پلان بنایا ہے کیونکہ ان کے ووٹ کے بغیر مستقبل میں کوئی سرکارنہیں بن سکتی۔ چونکہ 2019ء کے انتخابات میں ساری پارٹیاں نوجوانوں میں ہی سرمایہ کاری کرناچاہتی ہیں، جس میں سب کے آگے آر ایس ایس ہے۔ یہ جو آگے کا منصوبہ بنارہی ہے اپوزیشن اسی کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت میں ووٹنگ کے قابل 81.4کروڑ آبادی میںسے 37.8کروڑ آبادی18 سے 35سال عمر کی ہے۔ اسی تناظر میں جے این یو واقعہ کے فوراً بعد وہاںتمام بائیں بازو کے رہنماؤں کے علاوہ کانگریس صدر راہل گاندھی بھی پہنچے۔ پارلیمنٹ میں بھی بحث کی کمان نوجوان رہنمائوں کے ہاتھوںمیںرہی۔ سی پی ایم کی طلبہ تنظیم سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے قومی صدر وی پی سانو بتاتے ہیں کہ ملک کا 65فیصدی چالیس سالہ نوجوان توانائی سے بھراہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اس توانائی کی ضرورت ہے۔
گزشتہ سال وزیراعظم نریندرمودی کی مبینہ تنقید کرنے پر آئی آئی ٹی مدراس کی ایک طلبہ تنظیم امبیڈکر پیریار اسٹیڈی سرکل کی منظوری منسوخ کردی گئی تھی۔ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی چیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) میںگجیندرچوہان کی تقرری کا تنازعہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میںتین دلت طالب علموں کے خلاف اقدام اور روہت ویمولا کی خود کشی، پھر آر ایس ایس کے دفتر کے سامنے لڑکیوںکی پٹائی، جس میں پولیس اور سنگھ نے دہلی کی سڑکوں پر لڑکوں اور لڑکیوں کو دوڑ ادوڑا کر پیٹا ۔یہ تمام واقعات آر ایس ایس کی اسکرپٹ کے مطابق رونما ہورہے تھے ۔کئی بار چالاکی بھی اُلٹی پڑ جاتی ہے ۔ جے این یو واقعہ نے ایک کام کیا کہ اس نے بھا جپا کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کی طلبہ تنظیموں کو حکومت کے خلاف متحد کردیا اور ان تنظیموں کے بہانے کچھ سیاسی پارٹیاں بھی متحد ہوگئیں۔ یہ تیور کچھ کہہ رہے ہیں۔ماضی میں طلبہ تنظیمیں بے حد مضبوط رہی ہیں۔ بعد کے زمانے میںمذہب اور ریزرویشن کے نام پر نوجوان کو بانٹ دیاگیا۔ جیسے جیسے سیاسی پارٹیوں میں ذات اور دھرم کے نام پر بٹوارہ ہوا، طلبہ تنظیمیں بھی کمزور ہوتی گئیں لیکن اب ایک بار نوجوان پھر متحد ہورہے ہیں۔ آرا یس ایس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ اے بی وی پی کو طاقتور بناکر اس کے ذریعے تعلیمی اداروں پر اپنا تسلط جمائے مگر اس کی تدبیریں اُلٹی پڑ رہی ہیں۔ ان دنوں مرکزی حکومت کے کئی اقدام نے طلبہ کو ناراض کر کے رکھ دیاہے اور یہ غم و غصہ سرکار کے خلاف کبھی بھی پھوٹ سکتاہے۔ نوجوانوں کے تیور بتارہے ہیں کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل فوری طور حل نہ کئے تو اس کے اور نوجوانوں کے درمیان جنگ رُکنے والی نہیں۔ کانگریس کی طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) کے قومی صدر روزی ایم جان کہتے ہیں کہ مسائل آئیںگے تونوجوان سیاست میں حصہ لیںگے۔ اس وقت نوجوان حکومت کی گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاتھا کہ وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کو آکسفورڈ بنادیںگے لیکن گزشتہ بجٹ میں ہی تعلیم کا چوبیس فیصدی شئیر کم کردیاگیا ، وظائف بند ہورہے ہیں ، روزگار نہیں ہے، اِسکل ڈیولپمنٹ کاکوئی سانچہ نہیں ہے ، ایسے میں سوال پوچھنے کی آزادی بھی ختم کی جارہی ہے ۔ ہم سڑکوں پر نہیںاُتریں گے توکیا کریںگے؟
حکومت کے ایک خیمے کا کہناہے کہ یونیورسٹیوں کوسیاست کااڈہ نہیںہوناچاہیے، اس لئے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ یونیورسٹیوں میںآج بھی طلبہ یونین انتخابات نہیںکروائے جاتے ہیں۔ دہلی، کیرلہ، آسام ، اڑیسہ ، چھتیس گڑھ، پنجاب، اُترپردیش، تریپورہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک ، آندھرا پردیش ، تامل ناڈو میںمدت سے طلبہ یونینوںکے الیکشن نہیںہوئے۔ طلبہ یونین کے انتخابات کروانے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہوتی ہے۔ طلبہ طرف سے انتخابات کی مسلسل مانگ بھی ہو رہی ہے، عام طورپر طلبہ یونینوں نے مہنگائی اور فیس اضافے کے خلاف آواز یںاُٹھائی ہیں مگراس کے ساتھ ہی کرپشن ، بابری مسجد، سکھ فسادات وغیرہ قومی موضوعات پربھی انہوںنے کھل کر اپناموقف سامنے رکھا۔ ایمر جنسی کے بعد جے این یو طالب علموں نے سابق وزیراعظم اندرا گاندھی تک کو یونیورسٹی میںآنے سے روکاتھا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی لڑائی یونیورسٹیوں کے کیمپس میں پہنچ چکی ہے۔ اس جنگ میں اگر جیت آر ایس ایس کی ہوئی اور طلبہ کے ذہن وقلب پر خدانخواستہ اس کاقبضہ ہوا، تب ہندوستان کوہندو راشٹربنانے کی طرف دو قدم بڑھہ پائے گا مگر یہ آسان کام نہیں بلکہ ٹیڑھی کھیر ہے۔