میرے ایک دوست ہیں جو برسرملازمت نہیں ہیں، نہ ان کا کوئی خاص ذریعۂ معاش نہیں، مزید یہ کہ وہ کثیر العیال بھی ہیں اوربڑی مشکل سے دوچارہزار کما پاتے ہیں۔ مجھے اکثر اپنی حالت زار بتاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے بات ہورہی تھی تو میں نے ان سے کہا مجھے یاد دلانا میں ایک دعا بتاؤں گا جس کے وظیفہ سے روزی میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ میں نے جان بوجھ کر اس وقت انہیں وہ دعا نہیں بتائی تاکہ ان کے شوق اور عاؤں پر ان کے اعتبار کو دیکھ لوں۔کئی ماہ ہوگئے ۔ کئی بار ملاقات بھی ہوئی۔ فون پر بھی بات ہوتی رہتی ہے مگر کبھی انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کچھ دعاؤں کے وظیفے کا ذکر کررہے تھے۔یہی حالت ہے آج کل عام مسلمانوں کی۔علماء اور حفاظ کرام کو چھوڑ کرامت مسلمہ کی بھاری تعداد بلکہ کہہ لیجیے کہ نوے پنچانوے فیصد لوگ قرآن کریم درست طریقے سے تو پڑھ نہیں سکتے۔ فرائض کی ادائیگی ہو نہیں پاتی تو پھر روز مرہ کی دعاؤں کے وظیفے کا سوال ہی کہاں پیداہوتاہے۔اب تو حالت یہ ہے کہ ہم اپنے اعزاء و اقرباء کو الوداع کہتے وقت فی امان اللہ کہنے کے بجائے انہیں ٹاٹا اور بائی بائی کہتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں۔کسی سے ملاقات کے وقت ہیلو اور ہائی کہتے ہیں۔ چھینک آئے تو الحمد للہ کہنے کے بجائے سوری کہتے ہیں۔کسی کا انتقال ہوجائے تو انا للہ کے بجائے ویری سوری اور so sad یا RIP لکھتے ہیں۔ کسی کا شکریہ ادا کرنا ہو تو جزاک اللہ کے بجائے تھینک یو کہتے ہیں۔کسی بات سے اتفاق کرنا ہو توOK کہتے ہیں۔کسی بات پر تعجب کا اظہار کرنا ہو توسبحان اللہ کے بجائے Wow کہتے ہیں۔گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی دعا کا ہم اہتمام نہیں کرتے۔سواری پر بیٹھتے وقت ہم دعا کا ورد نہیں کرتے۔ صبح شام کی دعاہم نہیں پڑھتے۔ سونے کے وقت کی دعا ہمیں یاد نہیں۔ سوکر اٹھنے کی دعا سے ہمیں مطلب نہیں۔ بیت الخلاء کی دعا، اس سے فراغت کی دعا۔ کھانے کی دعا، کھانے سے فراغت کی دعا،کھانے کے وقت بسم اللہ بھول جانے کی دعا، نیالباس پہننے کی دعا،مسجد میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کی دعا، رزق میں وسعت کی دعا، اولاد کی تربیت کی دعا، ماں باپ کے لیے دعا، دوست واحباب کے لیے دعا، پڑوسیوں کے لیے دعا، امت مسلمہ کے لیے دعا۔ اب یہ ساری دعائیں امت مسلمہ کے بیشتر لوگوں کو نہ ہی یاد ہیں نہ ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔جب کہ اسلام وہ جامع ترین آفاقی مذہب ہے جس نے قدم قدم پر ہماری رہنمائی کی ہے کہ ہم دعاؤں کے ذریعے نہ صرف رب العالمین کا قرب حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ان دعاؤں کے وظیفے سے اپنی زندگی کو ہم پر بہار بناسکتے ہیں۔ بابرکت بناسکتے ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والے بہت سارے مسائل ومشکلات سے نجات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری بڑی تعداد ان دعاؤں کی اہمیت وفضیلت سے ناواقف ہے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے ہر ہر لمحے کی دعائیں ہمیں بتائی ہیں جو بہت جامع ہیں اور باعث خیر وبرکت بھی۔یہ بھی کہا ہے کہ دعا عبادت ہے۔ (ترمذی) دعاؤں سے تقدیر بدل سکتی ہے (ترمذی) خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہر لمحہ اور ہر آن اپنے رب کو یاد کیا کرتے تھے۔ دعاؤں کا اہتمام کرتے تھے۔
مجھے یاد آتا ہے ہم مکتب میں پڑھتے تھے تو شام کو مکتب کی چھٹی سے قبل تمام دعاؤں کا ورد کیا جاتا تھا۔ انہیں یاد کرکے سنایا جاتا تھا۔ وضو کی پریکٹس کرائی جاتی تھی۔ نماز کی باجماعت جہری مشق کرائی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے بچپن سے ہی ہمیں بہت ساری دعائیں یاد ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ والد صاحب نے ہمیں سکھایا تھا کہ جب آندھی طوفان آئے یا بارش آئے تو اس سے بچنے کے لیے اللہم حوالینا ولا علینا کا ورد کرواور ہم آندھی طوفان اور بارش کے وقت اپنے آپ ہی اس دعا کا ورد کرنے لگتے تھے۔ مجھے یاد ہے والد صاحب نے ہمیں سکھایا تھا کہ کھانا کھانے وقت بسم اللہ کے ساتھ ساتھ اللہم بارک لنا فیما رزقتنا بھی پڑھا کرو۔بیت الخلاء جاتے وقت اللہم انی اعوذبک من الخبث والخبائث پڑھاکرو۔مجھے کسی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ مسلم شریف کی روایت کے مطابق جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو تکلیف کی جگہ پر ہاتھ رکھ کرتین مرتبہ بسم اللہ کے بعد سات مرتبہ اعوذ بعزۃ اللہ وقدرتہ من شر ما أجد واحاذر کا سات مرتبہ ورد کیا جائے۔تکلیف دور ہوجائے گی۔ہمیں ہمارے اساتذہ اور والدین نے دعائے سفر بھی یاد کرائی تھی۔ لیکن جب ہم نے سعودی عرب کا سفر کیا تو سعودی ایئرویز میںسفر کرتے کرتے ہمیں سبحان الذی سخر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون کے ساتھ ساتھ اللہم انا نسألک فی سفرنا ہذا البر والتقوی ومن العمل ما ترضی ، اللہم ہون علینا سفرنا ہذا واطو عنا بعدہ، اللہم انا نعوذبک من وعثاء السفر وکآبۃ المنظر وسوء المنقلب فی المال والأہل اپنے آپ ہی یاد ہوگئی جب سے ہم سفر میں پوری دعا کو پڑھنا نہیں بھولتے۔ میرا مشاہدہ یہ بھی کہتا ہے کہ سفر میں جن افراد کے ساتھ حادثات پیش آتے ہیں ان کااگر سروے کرلیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس میں پیشتر تعداد مسلمانوں اور خاص طور سے ان مسلمانوں کی نہیں ہوگی جو دعاؤں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔آج ہماری طرز معیشت ومعاشرت نے کس طرح ہمیں ٹنش میں مبتلا کررکھا ہے لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ لا حول ولاقوۃ الا باللہ کے ورد سے ٹنشن ختم ہوجاتا ہے۔ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ’’فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا‘‘ کے ورد سے زندگی کا ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔کتنے لوگ جانتے ہیں کہ آیۃ الکرسی کے وظیفے سے شیطانی وسوسوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ معوذتین کے ورد سے نگاہ بد سے تحفظ ملتا ہے۔سحر سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔کثرت استغفار سے رزق میں وسعت اور برکت آتی ہے۔
مجھے یاد ہے میں نے سب سے پہلے دعاؤں کی جو کتاب دیکھی وہ تھی مولانا مختار احمد ندوی کی مرتب کردہ کتاب ’’نماز مسنون‘‘۔ جسے والد صاحب بمبئی کے ایک سفر سے لے کر آئے تھے۔ اسے ہمارے گاؤں کے بہت سارے لوگوں میں تقسیم بھی کیاگیا تھا۔یہ کوئی غالبا تیس قبل کی بات ہے۔ ہم نے بھی اس کتاب سے بہت ساری دعائیں یاد کی تھیں۔ اس کے بعد دعاؤں کی جو کتاب نظر کے سامنے آئی وہ تھی مولانا شریف اللہ سلفی کی مرتبہ کردہ کتاب مسنون نماز۔ یہ دونوں کتابیں ابھی میرے پاس تو نہیں ہیں لیکن میری یادداشت کہہ رہی ہے کہ دونوں ہی کتابیں ایک ہی اسٹائل میں مرتب کی گئی تھیں۔ اس کے بعد جب سعودی عرب کا سفر ہوا تو وہاں دعاؤں کی جو سب سے مختصر اور جامع کتاب نظر سے گذری وہ تھی شیخ سعید القحطانی کی ’’حصن المسلم‘‘ اس کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بہت ساری زبانوں میں اس کے ترجمے بھی ہوئے۔ اس کے بعد کوئی پندرہ سال قبل ایک اور کتاب نظر سے گذری محمد عبد الرحمن بقا محدث غازی پوری کی کتاب خیار الدعوات جسے شیخ رضاء اللہ عبد الکریم مدنی نے تخریج کرکے شائع کرایا۔ یہ کتاب مذکورہ بالا دیگر کتابوں سے قدرے مختلف اور بے انتہا مفید اور جامع ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک اور کتاب بذریعۂ ڈاک موصول ہوئی ہے جس کا نام ہے ’تعلم الادعیہ‘‘ ۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کے مولف ہیں ’’سلسلۂ تعلم اللغۃ العربیۃ‘‘ کے فاضل مولف شیخ شمیم احمد عبد الغفار اور ان کے فاضل دوست شیخ محفوظ الرحمن صاحب۔اس کتاب کا ہر جزء ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ کتاب مذکورہ بالا تمام کتابوں سے مختلف ہے۔اس کتاب کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱۔ یہ کتاب مذکورہ بالا تمام کتابوں کے برخلاف مکمل رنگین ہے اور خوب صورت بٹر پیپر پر شائع ہوئی ہے۔
۲۔ہر دعا کا ٹائٹل اور ہر دعا کا ترجمہ اردو کے بجائے انگریزی میں درج کیاگیا ہے۔
۳۔ ہر دعا کا ماخذ پورے حوالے کے ساتھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہ کتاب بھی مسنون اور ماثور دعاؤں کا مجموعہ ہے۔ کوئی بھی دعا ایسی اس کتاب میں درج نہیں کی گئی ہے جو حدیث سے ثابت نہ ہو۔
۴۔کتاب میں ہر دعا کی مناسبت سے تصویریں دی گئی ہیں جو چھوٹے بچوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے یا اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ دعاؤں کی کتاب میں تصویریں دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بغیر تصویر کے بھی دعاؤں کو لکھا جاسکتا تھا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اولاً تصویریں کارٹونی شکل میں ہیں۔ ثانیاً اب تو تصویروں نے ہمارے اعصاب پر اس طرح قبضہ کرلیا ہے کہ ان کے جواز وعدم جوازکی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ثالثاً یہ کہ اس طرح کے تصویر ی مناظر سے بچوں میں دعاؤں کے یاد کرنے کا شوق دامن گیر ہوگا۔
۵۔ یہ کتاب حصن المسلم ، خیار الدعوات اور سنہری دعائیں وغیرہ کی جامع ہے۔
اس کتاب میںتقریبا وہ تمام دعائیں دے دی گئی ہیں جو روز مرہ کی ضرورتوں میں کام آتی ہیں۔ مثلا کھانے کے وقت کی دعا۔افطار کے وقت کی دعا، چاند دیکھنے کی دعا، سونے کے وقت کی دعا،چھینکنے کے وقت کی دعا، چھینک کا جواب دینے کی دعا۔بیت الخلا میں آنے جانے کی دعا،نیا لباس پہننے کی دعا،گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا، بارش سے خوف کی دعا، آندھی کے وقت کی دعا، اس کے بعد وضو اور نماز وں کی ضروری دعاؤں کے بعد سواری پر بیٹھنے کی دعا، سفر کی دعا، سفر سے واپسی کی دعا اور نئے گھر میں داخل ہونے کی دعاسے اس کتاب کے پہلے جز کا اختتام ہوجاتا ہے۔دوسرے جز میں جو دعائیں دی گئی ہیں ان میں مصیبت کے وقت کی دعا، مریض کی عیادت کے وقت کی دعا، جنازے کی دعا، استخارے کی دعا،عیدین کی تکبیرات اور جانور ذبح کرتے وقت کی دعا، حج کے مختلف ارکان سے متعلق دعائیں،غصے کے وقت کی دعا، دشمن سے ملاقات کے وقت کی دعا، قرض کی دعا، مرغ کے بانگ کے وقت کی دعا، گدھے کے بولنے کے وقت کی دعا، صبح وشام کی دعائیں، سید الاستغفار، خطبۂ حاجت، شادی کے وقت مبارکبادی کی دعا، مجلس سے اٹھنے کے وقت کی دعا، نظر بد کی دعا کے علاوہ کچھ اورمتفرق دعاؤں پر اس کتاب کے دوسرے حصے کا خاتمہ ہوجاتاہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ یہ ہے کہ اسے نئے زمانے کے تقاضے کے مطابق تصویروں اور کارٹون کی شکل میںاس طرح رنگین اور جاذب نظر طباعت کے ساتھ پیش کیاگیا ہے کہ یہ کتاب بہت پرکشش بن گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں جہاں دینی رجحان ختم ہورہا ہے۔ فرائض وواجبات سے غفلت میں اضافہ ہورہا ہے، دعاؤں سے ناطہ اور رشتہ ٹوٹ رہا ہے ایسے میں یہ کتاب دعاؤں سے رغبت پیدا کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں پہلی کتابوں سے ہٹ کر کوئی نئی دعا نہیں پیش کی گئی ہے بلکہ اس کتاب میں دعاؤں کو نئے اندا ز میں پیش کیاگیا ہے۔ خوب صورت گٹ اپ اورپر کشش تصویروںکے ساتھ ۔در اصل اس کتاب کے اصل مولف شیخ شمیم احمد ریاضی عجیب وغریب دھن کے آدمی ہیں۔ مخلص،غیرت مند، دیندار، محنتی اوربا صلاحیت ہیں۔ہندستان کے علاوہ انھیں عالم عرب کی دانش گاہوں میں بھی اپنی علمی تشنگی فرو کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسی لیے ان کا vison بہت واضح ہے۔ ان کی دینی وملی حمیت وغیرت ان کے سر چڑھ کر بولتی ہے۔ انہوں نے یونٹی پبلک اسکول چنئی میں جس طرح تحفیظ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی تعلیم کو پورے انگریزی میڈیم اسکول میں لازمی اور Compulsary کرادایا ہے اس کے لیے وہ ہم سب کی طرف سے شکر و احسان اور اللہ تعالی کی طرف سے جزائے خیر کے مستحق ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے سلسلۂ تعلم اللغۃ العربیۃ کا ایسا نادر ونایاب سلسلہ شروع کیا ہے جو عربی میڈیم میں ہے او رکم عمر طلبہ یا بالغان کے لیے بھی بے انتہا مفید اور قابل قدر ہے۔ اسی سلسلۂ تعلم اللغۃ العربیۃ کے تکملے کے طور پر انہوں نے تجوید وقرات کی تعلیم کے لیے بھی ’’تعلم القرآن‘‘ کے نام سے کتاب مرتب کی ہے۔ جب سلسلہ ٔ تعلم اللغۃ العربیۃ کی تکمیل ہوگئی تو اپنے ایمانی جذبے کے زیر اثر انہوں نے دعاؤں کی یہ کتاب بھی مرتب کی تاکہ امت کے بچے ، اگر عربی اچھی طرح پڑھ سکیں، بول سکیں، قرآن بحسن وخوبی پڑھ سکیں اور قرات کرسکیں تو انہیں چاہیے کہ وہ روز مروہ کی دعاؤں کے وظیفے کے ذریعے اپنی زندگی کو خیر وبرکت سے معمور کریں۔ چنانچہ اسی حوصلے سے انہوں نے تعلم الادعیہ کے نام سے یہ کتاب مرتب کی۔
تعلم اللغۃ العربیۃ‘‘ کے مختلف اجزاء کی طرح یہ کتاب ’’تعلم الادعیہ‘‘بھی خوب صورت، جاذب نظر، پرکشش اور رنگین ہے۔ اللہ کرے ان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی سند قبولیت حاصل کرے اور اس کے مرتبین اور ناشر کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہو۔ آمین۔
…………………………
رابطہ :صدر شعبۂ عربی، اردو، اسلامک اسٹڈیز بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموںوکشمیر
9086180380