عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے کہا کہ جموں و کشمیر کے مسائل و مشکلات کے حل کو یقینی بنانے کے لیے نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے ضروری ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر کیلئے دوبارہ ریاست کا درجہ حاصل کرنا ایک وقت طلب عمل ہو سکتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے مرکزی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنے اور کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔موصولہ بیان کے مطابق بخاری نے ان لوگوں کو ہدفِ تنقید بنایا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ خود بخود بحال ہوجائے گا کیونکہ وزیر داخلہ نے اس کا وعدہ پارلیمنٹ میں کیا ہے۔انہوں نے کہا ’’پارلیمنٹ میں کیا کہا گیا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا آپ کو یاد نہیں کہ 1947 میں جواہر لعل نہرو نے بطور وزیر اعظم پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا پھر ہمیں یہ حق مل گیا؟ اسی طرح، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ریاست کے درجے کے حوالے سے کیا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہمیں نئی دہلی سے اس کا مطالبہ کرنا ہوگا اور مرکز سے رابطہ کرکے اسے یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ جموں کشمیر کو سٹیٹ ہْڈ دینا ملک کے مفاد میں ہے‘‘۔الطاف بخاری نے کہا ’’مرکز کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں نے اس سے کبھی انکار نہیں کیا اور نہ ہی مجھے مرکز کے قریب ہونے پر کوئی شرمندہ ہے۔ اگر مسائل کو حل کرنا ہے تو نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے ہوں گے۔ جموں و کشمیر کے مسائل کا حل نئی دہلی سے آئے گا، یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کی حکمراں جماعت، ایک بڑا عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد بھی، اب مرکز کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ‘‘۔ امن و امان کی صورتحال پر بخاری نے کہا ’’میرے خیال میں اگر ہم ماضی سے اس کا موازنہ کریں تو حالات بہتر ہیں۔ تاہم ہلاکتوں کے حالیہ واقعات بتاتے ہیں کہ یہ ہنگامہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ہم نے حالیہ دنوں میں افسوسناک واقعات ہوتے دیکھے‘‘۔انہوں نے کہا ’’بارہمولہ میں ٹرک ڈرائیور کو نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب کولگام میں ایک سابق فوجی کو مارا گیا، یہ دہشت گردی کا واضح واقعہ تھا، دہشت گردوں نے اسے مار ڈالا لیکن ٹرک ڈرائیور کو مارنے والوں کو ہم کیا کہیں گے؟ ڈرائیور کے قتل اور کٹھوعہ واقعہ میں سیکورٹی فورسز کا ہاتھ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا اور سیکورٹی فورسز کو لگام دینی ہوگی‘‘۔ الطاف بخاری نے بی جے پی پر اسمبلی انتخابات کے دوران مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا ’’انتخابات ہارنے کے بعد ہماری کمیٹی نے ہماری شکست کی وجوہات کا جائزہ لیا اور ہم نے پایا کہ یہ بی جے پی ہی تھی جس نے ان انتخابات کو ہندو مسلم مقابلے میں تبدیل کیا تھا۔ ہمارے یہاں ماضی میں کبھی مذہب کی بنیاد پر انتخابات نہیں ہوئے تھے، لیکن بی جے پی نے جموں میں ہندو ووٹ کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر یکجا کیا۔ یہ دیکھ کر وادی کے مسلم ووٹر بھی متحد ہو گئے اور ووٹ دینے کے لیے صرف ایک پارٹی کا انتخاب کیا تاکہ وہ بی جے پی کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ اپنی پارٹی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ بنی۔ بہرحال ہارنا یا جیتنا جمہوری عمل کا حصہ ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا ’’ہماری شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اپنی پارٹی کو اس کے حریفوں کی طرف سے شروع کی گئی بدنامی کی مہم کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم پر بھاجپا کی ’بی ٹیم‘ یا پراکسی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ یہ مہم 2020 میں ہماری پارٹی کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ یہ الزامات ہمارے مخالفین کی طرف سے چلائی جانے والی منفی سیاست کا حصہ تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم ہار گئے، لیکن ہم نے ہار کو اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا۔‘‘انہوں نے کہا، ’’اپنی پارٹی کے خلاف ان جھوٹے الزامات کی وجہ سے ہمارے کچھ رہنما بھی ہمیں چھوڑ گئے۔ اگرچہ وہ پارٹی چھوڑنے کے بعد بھی جیت نہیں سکے لیکن پھر بھی ان کے جانے سے پارٹی کو نقصان پہنچا۔‘‘رْکنِ پارلیمنٹ انجینئر رشید کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ ’میرے خیال میں منتخب رکن پارلیمنٹ کو رہا کیا جانا چاہیے۔ انہیں پانچ لاکھ لوگوں نے منتخب کیا۔ عوام کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ تمام قیدیوں کو جیلوں سے رہا کیا جانا چاہیے۔‘‘جب ان سے میر واعظ عمر فاروق کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ’’ میں متحرک ہوجانے ر میرواعظ صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ اْنہیں تنقید کا نشانہ بنائیں گے، لیکن میں اسے کہوں گا، ‘ہمت مت ہاریں۔ آپ سیدھے راستے پر ہیں، اور اللہ آپ کی مدد کرے گا‘‘