ترنم ریاض کی افسانہ نگاری

شوکت احمد راتھر
انہوں نے بہت سی کہانیاں لکھی اور اس بات کو عیاں کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح سماج میں عورت کے ساتھ نا انصافیاں ہوتی آئی ہیں۔انہوں نے عورتوں کی نفسیات کا نہایت عمیق مطالعہ و مشاہدہ کیا  ہے اور اپنے تمام مشاہدوں اور تجربوں کو افسانوں میں بروئے کار لایا ہے۔ان کی ہر تحریر میں ہمیں گھریلو ماحول اور معاشرے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ افسانہ ’’ یہ تنگ زمین ‘‘ میں افسانہ نگار نے ایک ماں کی ممتا کو بڑی شدت کے ساتھ پیش کیا ہے، جس کی ممتا نہ صرف اپنے بچوں کے لئے تڑپ اٹھتی ہے بلکہ دوسرے بچوں کے لئے بھی اس کی ممتا جاگ اٹھتی ہے۔ افسانے کی کہانی ایک معصوم بچے کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مصنفہ نے افسانے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ کس طرح آس پاس کاماحول اور معاشرہ ایک نو عمر بچے کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔نیز افسانے میں افسانہ نگار نے کشمیر کے موجودہ عہد کے کربناک حالات پر گہرا وار کیا ہے۔    

’’بڑے کمرے کے دروازے پر اس کی منی سی بہن ہونٹوں پر انگلی رکھے پہرا دے رہی تھی ’’شی ادھر نہیں جانا فائرنگ ہورہی ہے‘‘۔ وہ مجھے خبردار کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی اندر جھانکا تو عجیب منظر دیکھا ۔سارے گھر کے تکیے اور سرہانے ایک کے اوپر ایک اس طرح رکھے ہوئے تھے جیسے ریت کی تھیلیاں رکھ کر مورچے بنائے جاتے ہیں۔ وہ درمیان میں اوندھا لیٹا ہوا ایک بڑی سی لکڑی کو بندوق کی طرح پکڑے منہ سے مختلف طرح کی گولیوں کی آوازیں نکال رہا ہے اور اس کے دائیں بائیں میرے دونوں بیٹے اپنی پرانی چھوٹی چھوٹی پلاسٹک بندوقیںلیے ہوئے اس کاساتھ دے رہے ہیں۔ سمجھی ۔۔۔۔۔کی آڑ میں ہوکر دوسری طرف کودتا کبھی دوسری الماری کے پیچھے چھپ کر جست لگا کر دیوار کے ساتھ چپک جاتا اور وہ خود مورچے سنبھالے کبھی ان کو ہدایت کرتا کبھی ان پر بندوق تان دیتااب یہی اس کا پسندیدہ کھیل تھا‘‘ وہ میٹھی بولیاں ، وہ رقص ،وہ موسیقی ۔۔۔ بھول گیا تھا اور وہ سب یاد لانے کے لئے میں شاید اسے کہیںنہیں لے جا سکتی تھی۔‘‘  ۳؎

افسانہ ’’ اماں ‘‘ میں افسانہ نگار نے آج کے دور میں بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی حسین تصویر پیش کی ہے۔مصنفہ نے واضح کیا ہے کہ کس طرح ماں اپنے بچوں کو پرورش کرتی ہے ، کتنی تکلیفیں اور پریشانیاں برداشت کرتی ہے لیکن جب یہ بچہ جوان ہوجاتا ہے تو ان تمام چیزوں کو بھول کر اس چند دنوں کی زندگی کا غلام بن جاتا ہے اور اپنی تمام محبت کو اس بے سود دنیا کے پیچھے صرف کردیتا ہے۔ اور اپنی ماں کی ممتا کو دنیاوی محبت میں بھول جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اماں جیسی عورت جو زندگی بھر مصیبت جھیلتی رہتی ہے اور کچھ پل سکون کی زندگی جینے کے لئے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔افسانہ ’’ پورٹریٹ ‘‘ میں ساس اور بہو کے بیچ اختلافات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس افسانے میں یہ بتایا گیا ہے کہ بہو ہمیشہ اس بات کی خواہش مند دکھائی دیتی ہے کہ اس کی ساس کسی دوسرے کی باتوں میں آئے بغیر اسے اپنی ہمرازا بنائے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا ۔دراصل افسانے کے ذریعے مصنفہ نے اُن تمام عورتوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی بہوں سے ایسا ہی برتاؤ کریں جیسا کہ وہ اپنی بیٹوں کے ساتھ کرتی ہے تاکہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی کوئی عورت جنم نہ لے جس سے عورت ذات کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ،اور ساتھ ہی ساتھ اُن تمام بہووں کو بھی تلقین کیا ہے کہ صبر و تحمل سے زندگی جینا ہی سب سے بڑی انسانیت ہے۔ 

 ’’ میں آپ کی بہن بھابی یا بھا نجی نہ سہی ، آپ کی بہو تو ہوں ۔ بہت سے خواب لے کر آئی ہوں ۔آپ کو اپنی امی کی طرح چاہنا چاہتی ہوں ۔ ذرا سا مجھ کو بھی اپنوں میں شمار کر لیجئے ۔ مجھے نظروں کی زبان نہ سکھائیں تو نہ سہی کہ وہ میرے ہی خلاف تو ایجاد ہوئی ہے اور جب رازداری ہی مجھ سے ہے تو میں ہمراز ہوجانے کی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کا خیال کرنے کی جسارت کیسے کر سکتی ہوں۔‘‘  ۴؎ 

  ’’میرا رخت سفر‘‘ بھی ترنم ریاض کا ایک دلچسپ افسانہ ہے۔ اس میں انہوں نے روہی نام کی عورت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی جاتی ہے جو شراب نوشی اور جوئے بازی  جیسی بری عادتوں میں مبتلا ہو کر سارا پیسہ خرچ کر دیتا ہے اور آخرکار بے بس ہو کر گھر میں پڑا رہتا ہے۔ روہی کافی سنجیدہ اور فکرمند عورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے ۔اس طرح سے وہ ایک فیشن ڈیزائننگ کا ایک شوروم کھولتی ہے اور وہاں دیر رات تک کام کرتی ہے۔ اس کے شوہر کو ان کا دیر رات تک کام کرنا پسند نہیں آتا اوربیوی کو کام پہ جانے سے منع کرتا ہے ۔لیکن روہی مسلسل اپنے کام میں لگی رہتی ہے اور پھر ایک رات اس کا شوہر فریب کاری اور مکارانہ کام سر انجام دے کر اس کا خون کر دیتا ہے اور خود بھی بزدلی کا کام انجام دے کر خودکشی کر بیٹھتا ہے۔ 

  افسانوی مجموعہ ’’میرا رخت سفر‘‘ میں ایک عمدہ کہانی ’’ حضرات خواتین ‘‘ ہے جس میں افسانہ نگار نے گھر کے ملازمین میں نا جائز جنسی تعلقات کو موضوع بنایا ہے جو گھر کی مالکن کے لئے ایک چلینج بن جاتا ہے اور پھر وہ کسی طرح ان حالات سے نبر آزما ہوجاتی ہے۔اس افسانے میں بڑے شہر میں کام کرنے والی نوکرانی سندرتی کی کہانی ہے جو گاؤں کی ان پڑھ گوار لڑکی ، جسے نہ ڈھنگ سے بولنا آتا ہے ، نہ شہری طور طریقے سے واقف ہے لیکن دھیرے دھیرے سب سیکھ جاتی ہے۔ کہانی کار نہ صرف سندری کے جنسی استحصال کو فوکس کیا ہے ، جنسی استحصال صرف مالک یا مالک کے بیٹے کے ذریعہ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ساتھ میں دیگر کام کرنے والے نوکر بھی استحصال کرتے ہیں۔ایسا ہی سندری کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

وارث علوی ترنم ریاض کے بارے میں اپنے خیالات یوں پیش کرتے ہیں:۔

’’ ترنم ریاض کے افسانوں کو پڑھ کر مجھے پہلا احساس یہی ہوا کہ وہ ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگار ہے لیکن کوئی نقاد ان کی یہ شناخت قائم کرتانظر نہیں آتا ۔ یعنی ایسا لگتا ہے کہ نقاد کے   دل میں ایک خوف سا ہے کہ اگر انھوں نے اس خاتون کو ودسروں سے الگ کیا یا بہتر بتایا تو دوسرے ناراض ہوجائیں گے اس لئے عافیت اس میں ہے کہ انھیں ساتھ ساتھ ہی چلنے دو یعنی فہرستی ریوڑسے الگ نہ کرو۔اس رویّے سے دوسرے افسانہ نگاروں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ترنم ریاض کا نقصان ہوجاتا ہے۔ ان کی انفرادیت قائم نہیں ہوتی۔‘‘  ۵؎

افسانہ نگاری میں ترنم ریاض کا اسلوب نہایت سادہ اور سلیس ہے ۔ وہ عام فہم زبان سے اپنے فن کو جلا بخشتی ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں رواں دواں اور آسان الفاظ و محاورات ، جذبات و احساسات کی تاثیر میں ڈوبی تصویریں کھینچنے میں ماہر ہیں۔ وہ اپنے محسوسات ، مشاہدات اور مطالعات کو ان کی اصل شکل میں قارئین تک اس طرح منتقل کرنا چاہتی ہیں کہ ان کے ذہن پر بھی وہی اثر ہو جو فنکار کے ذہن پر ہوتا ہے۔ اس طرح ترنم ریاض کے اسلوب میں اختراع و ایجاز کے پہلو بھی ہیں۔ تازگی اور شادابی ان کی ہر کہانی میں پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے خیالات کے ترنم اور جملوں کی طراوت سے ہمارے حواس و اعصاب میں موسیقیت و غنائیت پیدا کر دیتی ہیں اور دل و دماغ میں توانائی اور طرفگی کا ایک سیل رواں بہا دیتی ہیں۔ جب تک ان کی تحریر ختم نہیں ہوتی قاری اس وقت تک بے چینی محسوس کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ان کی اپنی موجودگی اس قدر سے محسوس ہوتی ہے کہ افسانہ نگار خود ایک کردار بن جاتا ہے لیکن ہر جگہ گم نام یا راوی کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ مظہر امام ان کے افسانوں کے متعلق لکھتے ہیں:۔

’’ ترنم ریاض کے افسانوں کی جو فضا ہے وہ بڑی مانوس سی فضا ہے جس سے ہم سب واقف ہیں۔ اس کے اظہار میںکوئی تصنع آمیز صنائی نہیں ہے،بہت ہی صفائی اور شستگی کے ساتھ وہ اپنے افسانوں کا تانابانا بنتی ہیں۔ کہیں کہیں تو ان کے اسلوب میں خاص طرح کی مقناطیسیت آجاتی ہے جو اپنے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کو بہا لے جاتی ہے۔ ترنم ریاض اپنی سادی،بے تکلفی اور بے ساختگی کی وجہ سے ہمیں متاثر کرتی ہیں۔  ۶؎

الغرض ترنم ریاض ریاست جموں و کشمیر کی ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ وہ افسانے کے فن، نزاکت، نفاست اور تکنیک سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی تحریروں میں باریک بینی، مشاہدہ کی گہرائی، بلند خیالی، تجربے کی وسعت جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی زندگی سے جڑے رنگا رنگ مسائل اورحالات و واقعات کو پیش کیا ہے۔وہ اپنی تخلیقات میں انسانی رشتوں کی پاکیزگی اور دلی جذبات کے تقدس کو نہایت پر اثر اور بامعنی اسلوب میں پیش کرتی ہیں۔ وہ سماج اور معاشرے میں پھیلی برائیوں اور بد اعمالیوں پر پردہ پوشی نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے سے ان کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ ان کے افسانے پلاٹ کرادر نگاری زبان و بیان غرض ہر لحاظ سے کامیاب اور مکمل ہیں۔اُن کے کرادر کسی دوسری دنیا کے مخلوق یا باسی نہیں بلکہ ہمارے اردو گرد کے ماحول میں پل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جن سیاسی ، سماجی ، معاشی یا معاشرتی مسائل کو پیش کیا ہے ۔ ان پر ان کی نگاہ بہت عمیق اور گرفت مضبوط رہتی ہے۔ اُن کی تقریباً ہر کہانی میں جذباتی ارتعاش کا پہلو ملتا ہے۔ وہ Gender Based  کہانیاں تحریر کرنے سے گریز کرتی ہیں بلکہ اُن کے افسانے فردِ کائنات کی کہانی معلوم ہوتے ہیں۔غرض اپنے فن پاروں کے ذریعے وہ نہ صرف انفرادیت قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہیں بلکہ اپنی تخلیقی اُپچ اور اسلوبیاتی رویوں سے ترنم ریاض نے ریاست کے افسانوی ادب کو برصغیر کے ادبی معیار پر لا کھڑا کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی:۔۱۔ فلیپ ، یمبرزل، ترنم ریاض ،۲۔یمبرزل ، ترنم ریاض،  ص ۱۸،۳۔یہ تنگ زمین، ترنم ریاض، ص ۱۶،۴۔ یہ تنگ زمین، ترنم ریاض، ص  ۱۸،۵۔ فلیپ ، مرا رخت سفر ، ترنم ریاض،۶۔ فلیپ، یمبرزل، ترنم ریاض ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(نیوہ پلوامہ،رابطہ۔ 7889605952  )

[email protected]