سید مصطفیٰ احمد ۔بمنہ، سرینگر
آج دنیا کو عالمی گاؤں کہا جاتا ہے۔ اب سرحدوں کی رکاوٹیں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیںاوراب خبروں کے علاوہ افواہوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا ساعتوں کا وقفہ بن کر رہ گیا ہے۔ پرانے زمانے میں سائنس اور ٹیکنالوجی محدود ہاتھوں تک محدود تھی۔ عام طور پر لوگ سائنس کی ایجادات سے ناخواندہ تھے۔ لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ لوگوں کے درمیان رشتے ناطے محدود تھے مگر جو بھی روابط ہوا کرتے تھے، وہ حقیقی اور راست بازی پر مبنی تھے۔ پھر ایسا دور آیا، جس میں face-to-face رشتوں کی جگہ ان رشتوں نے لی جو زیادہ تر جھوٹ اور منافقت پر مبنی ہیں، اس رَو میں لگ بھگ سب بہہ گئے ہیں۔ بچوں سے لے کر بزرگ سب اس منافقت کا شکار ہوگئے ہیں۔ عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ تو دہرے معیارات کو سمجھ پاتے ہیں لیکن ان معصوموں پر ترس آتا ہے جو اس information explosion کا نوالہ بن گئےہیں۔ یعنی معلومات کے انبار کے علاوہ ان کے اذہان کو دکھاوے اور خود غرضی کی لعنتوں نے ایسا جکڑا ہے کہ اس سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے ۔ جسم کی نمائش، ناچ گانوں کی بیہودہ محفلیں اور نجی باتوں کا کھلے عام اظہار کا نتیجہ اس شکل میں نکل کر سامنے آیا ہے کہ عمر سے بڑے ہونے کا جنون ان معصوموں کو بے حیائی کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا رہا ہے ، جہاں سے نکلنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ایسے کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکا کہ معصوم بچوں سے ان کی معصومیت چھینی گئی۔ کچھ کا ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے حلال اور حرام کے فرق کا مٹ جانا۔ اصل میں بچوں کی کوئی خطا ہی نہیں ہے۔ جب زندگی کا مقصد ہی مال و دولت کو جمع کرنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہو تو ایسے میں بچوں کی صحیح تربیت کرنا یا تربیت پانا محال ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر لوگ حلال اور حرام کے فرق کو ہی بھول گئے ہیں۔ دنیا کی ہوس ایسے دامن گیر ہوگئی ہے کہ ہر طرف صرف مال ہی مال دکھائی دیتا ہے۔ سرمایہ داری کی گندی لت نے انسان کو جانور بنا دیا ہے۔ اولاد کو اب فوائد کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ جو اولاد کچھ کرنے کے قابل ہیں، ان پر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو بچے کمانے کی قوت نہ رکھتے ہو اور جو موجودہ زمانے کی چال بازیوں سے واقف نہ ہو، ان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی سوچ اور رویے کے مضر اثرات بچوں کے راہ سے بھٹکنے کی صورت میں نکل کے سامنے آتے ہیں ، تو ایسے میں اگر ایک بچہ موجودہ زمانے کی برائیوں کو اپنا لیں، تو کونسی بڑی بات ہے۔ ماں باپ اور بڑوں نے وہ لکیر ہی مٹا دی ہے جو حق کو باطل سے جدا کرتی ہے۔ ایسے میں بچوں کا سوشل میڈیا جیسی چیزوں کا خوگر ہونا بھی عام سی بات ہے۔ پرورش کا بھی بڑا رول ہوتا ہے۔تہذیب یافتہ گھروں کے بچے سماج اور خود کے لئے بھی راہنما ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں درمیانی راستے کا انتخاب کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی اس راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ کیسے غیر تہذیب یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے بچے گناہوں اور اخلاقی بےراہ راوی کے شکار ہوتے ہیں۔ میں نے زیادہ تر ان بچوں کو موبائل فونس کا غلط استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے جو شائستگی اور اخلاقیات جیسے الفاظ سے ناآشنا ہیں۔ وہی بچے خرابی کا شکار ہوتے ہیں جن کی پرورش ناقص ہوتی ہے۔ ماحول بھی ایک ایسا محرک ہے جو بچوں کی ذہنیت پر حاوی ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بچہ ماحول کا پیداوار ہوتا ہے۔ معاشرتی زندگی بچے کی ظاہری اور باطنی سطحوں پر سب سے زیادہ رول ادا کرتی ہے۔ جو سماج میں چلتا ہے بچہ وہی من و عن کرتا ہے۔ وہ اس حالت میں نہیں ہوتا ہے کہ وہ سماج کا گہرائی سے مطالعہ کرے۔ اس کے لئے سماج میں موجود افراد کا اٹھنا بیٹھنا ہی اصل زندگی ہے۔ ہمسائیگی میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بچے پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر سماج میں کوئی نوجوان یا کوئی دوسرا شخص انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر نازیبا حرکتوں کا مرتکب ہوجاتا ہے تو بچے کے لئےاس سے بچ پانا بہت مشکل ہے کیونکہ ہم نے لغویات کو بھی تہذیب کا نام دیا ہے۔ اس کے علاوہ جذباتی ناپختگی بھی طوفان بدتمیزی کو جنم دیتی ہے۔ ایک بچہ جذباتی ناپختگی کی بھول بھلیاں سمجھنے سے عاری ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ جذبات کا معقول راستہ نکالنے سے قاصر ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ اور اس سے منسلک چیزیں اس کے جذبات پر حاوی ہوتے ہیں اور اس کو راہ سے کہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ لوگوں کی جذباتی باتیں بھی بچوں کو بہت حدتک تباہیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ مزید برآں نظام تعلیم بھی کسی حد تک بچوں کو راہ سے بھٹکنے میں معاون ہوتا ہے۔ یہاں بچوں کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو زندگی میں کہیں بھی کام نہیں آتی ہیں۔ہاں، دستخط اور بورڈ پڑھنے میں اس قسم کی پڑھائی ضرور کام آتی ہے۔ جب ایسا نظام تعلیم موجود ہو، تو بچوں کا انسان بننا مشکل ہے۔ اس نظام تعلیم میں جہالت کو علم کے حسین القابات سے نوازا جاتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے لیے روشنی کے مینار بنیں تو کچھ بنیادی باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ رول ماں باپ اور بڑے بھائیوں اور بہنوں کو ادا کرنا ہوگا۔ اُن کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اور تجربہ کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو نصیحت برائے تعمیر کرے۔ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کریں،اتنی ہی ڈانٹ پلائی جائے جتنا جائز ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کو بھی اسکولوں میں بچوں کے ساتھ ایسا رشتہ قائم کرنا چاہئے جو ان معصوموں کے لئے مستقبل کا سکون مہیا کرسکے۔ ان کی غلطیوں کو اچھالنے کے بجائے سدھارنے کی کوششیں کریں۔ ان کو زندگی گزارنے کا صحیح ڈھنگ دکھانے کی سعی کریں۔ سوشل میڈیا کی گندگیوں سے بچوں کو بہت دور رکھا جائے۔ ہنر سیکھنا کچھ اور ہے لیکن ہنر کی آڑ میں شیطانیت اور منافقت سیکھنا کچھ اور ہے۔ موبائل فونس کا مثبت استعمال کرنا سکھایا جائے۔ ان چینلز کا انتخاب کیا جائے جس سے بچوں کی ذہنی وسعت بڑھ جائے۔ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی ویبسائٹس کا استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ گھر میں خوش اخلاقی کا ماحول ترتیب دیا جائے جو آگے چل کر سودمند ثابت ہو۔ مزید برآں بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھا جائے جہاں پر بچے کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ ہم سب کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ برتیںبلکہ اُن کو حال اور مستقبل کے لیے تیار کریں۔ بچے ہمارا کل ہے، ان کی ترقی میں ہماری ترقی کا راز چھپا ہے۔ تو آئیے ہم بچوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس منزل کی طرف دوڑیں جو ہمارا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہی ہے۔
[email protected]