عظمیٰ نیوز ڈیسک
حیدرآباد//ترقی کے تمام تر اقدامات کا مرکز صرف انسانیت ہونا چاہئے اور قدیم ہندوستانی تہذیب میں انسانیت اور پائیدار ترقی کے آثار مشترکہ طور پر نظر آتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر بدیت چکربرتی نے کیا۔ وشوا بھارتی یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر اور نظم و نسق کے معروف اسکالر پروفیسر چکربرتی منگل کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ‘پائیدار ترقی کے اہداف اور نظم و نسق عامہ کے کردار ‘ پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے مخاطب تھے۔ ان کے مطابق پائیدار ترقی کا تصور ہندوستانی تاریخ میں مغربی ممالک سے بہت پہلے ملتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے باضابطہ طور پر تحقیق کی جائے۔ پروفیسر چکربرتی کے مطابق قدیم ہندوستانی صحیفوں، جیسے ویدوں، اُپنِشدوں اور دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ ان کے مطابق عوامی فلاح، بھائی چارے اور یکجہتی کے بغیر پائیدار ترقی کا حصول بے معنی ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں عملی عناصر کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کے مطابق کسی تصور کی نظریاتی تشکیل اور اس کے عملی نفاذ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پروفیسر شگفتہ شاہین نے افتتاحی جلسے کی صدارت کی۔ اپنے صدارتی کلمات میں انہوں نے بتایا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کی کامیابی اس حقیقت پر منحصر ہے کہ اس کے عملی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔ ایسا ہی ایک اہم عملی نوعیت کا انتظامی پہلو ہے۔ انہوں نے شعبہ نظم و نسق عامہ کو بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے اس پہلو کو سامنے لانے پر مبارکباد دی۔