عارف شفیع وانی
بدلتے ہوئے موسمی نمو نے ہمارے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ہمارے نازک ماحول کی دیکھ بھال کرنا کتنا ضروری ہے۔جموں و کشمیر میںچلہ کلان میں طویل خشک موسم نے ہمیں موسم کی بے ترتیبی، گلوبل وارمنگ اور بڑھتی ہوئی آلودگی کی سطح کی تلخ حقیقتوں کی ایک جھلک دکھائی۔ اگرچہ کچھ علاقوں میں خشک سالی کا خاتمہ ہو گیا ہے، سردیوں میں کم بارش کی وجہ سے موسم گرما کے شباب پرخشک سالی جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ طویل خشک سالی نے جموں و کشمیر میں بلند درجہ حرارت کے درمیان گلیشیرو ں کے پگھلائوکی شرح بڑھا دی ہے۔
ہمیں حالیہ خشکی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور ماحول کو بچانے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ یہ تشویشناک ہے کہ موسم سرما کے دوران مختلف علاقوں میں جنگلات میں آگ لگ گئی تھی۔ اس بے ترتیب موسمی منظر نامے میں حکومت اور سٹیک ہولڈروںکو جموں و کشمیر کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانا چاہئے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جموں و کشمیرکو قدرتی آفات، خاص طور پر زلزلے، سیلاب اور مٹی کے کٹاؤ کا خطرہ درپیش ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس ہمالیائی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ وہی جموں و کشمیر ہے جو چند دہائیوں تک غیر آلودہ ماحول کا مالک تھا۔ اپنے پرسکون ماحول کی وجہ سے جموں و کشمیر سیاحوں کے لیے پسندیدہ مقامات میں سے ایک تھا۔ لیکن ہم نے فطرت کے ساتھ کھلواڑکیا اور آہستہ آہستہ اس کی اہم چیزوں کوتباہ و برباد کیا!
ماہرین ماحولیات متنبہ کررہے ہیں کہ جموں و کشمیر ہمالیہ کے سب سے نازک ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے اور اسے انسانوں کے حملے کے خلاف مناسب حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس حساس ماحولیاتی نظام کی حفاظت کی جا سکے۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھاگیا!کسی ضابطے کی عدم موجودگی میں حکام اور لوگ دونوں جموں و کشمیر میں ماحولیاتی نظام کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ماحولیاتی طور حساس زونوں میں بلا روک ٹوک تعمیرات کی جا رہی ہیں خواہ وہ پہاڑ ہوں، جھیلیں ہوں، زرعی میدان ہوں، جنگلات ہوں اورآب گاہیں!۔اگر حکام ماحول کو خراب کرتے ہیں تو لوگ خاموش تماشائی بن کر کام کرتے ہیں اوراگر لوگ ماحول تباہ کرتے ہیں تو حکام خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ کوئی بھی ماحول کی حفاظت نہیں کر رہا! محافظ تباہ کن بن گئے ہیں۔ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ قدرت کس طرح اپنی توڑ پھوڑ کا بدلہ لے رہی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ ہم نے اپنے لائف لائن دریا جہلم کو کس طرح آلودہ کیا اور اس کے بدلے میں ستمبر 2014 کے تباہ کن سیلاب میں اس نے ہمارے گھروں کو کس طرح تباہ کیا، پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا! ہم اپنے آبی ذخائر کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔
ہم 8اکتوبر 2005کو جموں و کشمیر میں آنے والے 7.6 شدت کے زلزلے کی خوفناک یادوں کو بھول گئے، جس نے خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ اب ہم ایک انتہائی خطر ناک زلزلاتی زون میں ہونے کے باوجود کنکریٹ کی بڑی تعمیرات کئے جارہے ہیں!۔جموں و کشمیر میں ہمارے زیادہ تر سیاحتی مقامات زیادہ بوجھ سے بھرے ہوئے ہیں اوراپنے اندر سموپانے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ سیاحوںکا بوجھ لئے ہوئے ہیں۔ لیکن نئے سیاحتی مقامات کی حفاظت کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے جو کہ بے ترتیب ترقی اور کنکریٹ کی تعمیر کے گواہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق جموں و کشمیر میںزلزلاتی طور فعال علاقوں میں غیر مستحکم مواد، مورین اور تنگ وادیوں پر عمارتوں اور بستیوںکے قیام کو روکنا چاہیے۔ پیالیو لینڈ سلائیڈوںکے قریب واقع بستیاں، کھڑی ڈھلوانوں اور آبی گزرگاہوں کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ اور زمین دھنس جانے کے کا خطرات زیادہ ہیں۔ کسی بھی تعمیرات کو شروع کرنے سے پہلے ایسی بستیوں کی تباہی کے خطرے کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔چناب پر بڑے ڈیموں کا سیفٹی آڈٹ ہونا چاہیے جن میں کشتواڑ میں ڈول ہستی، رام بن میں بغلیہار شامل ہیں کیونکہ یہ قدرتی آفات کا شکار ہیں۔دنیا غیر معمولی موسمی واقعات کا مشاہدہ کر رہی ہے کیونکہ زمین گرم ہو رہی ہے۔ 2023میں قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا کے لوگوں کو بری طرح متاثر کیا۔ سال کا سب سے تباہ کن واقعہ 6فروری کو ترکی میں 7.8اور 7.5کی شدت کے دو زلزلوں کے ساتھ تھا۔ ترکی میں 50,783اور شام میں 8,476 افراد زلزلے میں ہلاک ہوئے۔ 8 ستمبر کو مغربی مراکش میں 6.8 شدت کا زلزلہ آیا جس میں کم از کم 2,900 افراد ہلاک ہوئے۔
سمندری طوفان ڈوکسوری29 جولائی کو شمال مشرقی چین کے کم از کم 16ہروں اور صوبوں میں خاصی بارشوں اور سیلاب کا باعث بنا۔ بحیرہ روم کا طوفان ڈینیئل مشرقی لیبیا سے گزرا، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ طوفان کے باعث میکسیکو، ہانگ کانگ اور مغربی یورپ میں بھی سیلاب آیا۔ کینیا کے ساتھ ساتھ صومالیہ اور ایتھوپیا میں شدید سیلاب درجنوں افراد کو ہلاک اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنا۔ خشک سالی کی وجہ سے دریائوں کی سطح گر گئی اور دنیا کے مختلف حصوں میں آبی ذخائر خشک ہو گئے، بشمول ایمیزون برساتی جنگل۔ ہمیں ان واقعات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
بدلتے موسمی حالات کے درمیان عالمی پالیسی ساز اگلے ماہ نئی دہلی میں23ویں عالمی پائیدار ترقی کے اجلاس میںاہم گفت و شنید سیشنوں میں مشغول ہونے والے ہیں۔ وہ عالمی چیلنجوں جیسے تنازعات، سیاروں کے بحران، اور پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) میں ناکامیوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
پائیدار ترقی کے لئے 2030کا ایجنڈا 2015 میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے اپنایا تھا۔ یہ ایجنڈا لوگوں اور کرہ ارض کے لیے امن اور خوشحالی کا مشترکہ خاکہ فراہم کرتا ہے۔ 17پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کا مقصد غربت کو ختم کرنا، صحت اور تعلیم کو بہتر بنانا، عدم مساوات کو کم کرنا، اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور سمندروں اور جنگلات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی کرناہے۔
ایک رپورٹ’’ ‘عالمی پائیدار ترقی کی رپورٹ 2023’‘‘ کام کی سست رفتار کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں 2030کی آخری تاریخ کو پورا کرنے کے لیے اراکین کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ اس رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ پیش رفت جیسی ہی رفتار رہی تو شاید ہی پائیدار ترقی کے اہداف 2050 تک مکمل ہو سکتے ہیں۔
ہمیں اپنی مستقبل کی ضروریات کو محفوظ بنانے کے لئے پائیدار ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ پائیدار ترقی ترقی کے لئے ایک متوازن نقطہ نظر کو یقینی بناتی ہے جو سماجی شمولیت، ماحولیاتی پائیداری اور اقتصادی خوشحالی کے ساتھ ترقی کو آگے بڑھاتی ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے میں سنجیدہ ہیں۔ ہمیں اپنے سیارے، اپنی قوم اور سب سے بڑھ کر اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لئے عالمی کوششوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے!
(مضمون نگار انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیرکے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔)