تحقیق،حقیقت تلاشنے کا نام ہے۔علمی،ادبی وسائنسی تحقیق جاں سوزی کا عمل ہے۔موضوع کا انتخاب،مواد کی فراہمی،معتبر حوالے وحواشی اور پھر عالمانہ زبان وبیان کے ساتھ کسی موضوع پہ تحریری اظہارکرنا کسی بھی صورت میں آسان نہیں ہے۔یہاں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ تحقیق،حقائق کی بازیافت کی متقاضی ہوتی ہے ،خیالی دنیا کی متحمل نہیںہوتی۔آج کے سائنسی وتکنیکی ترقی یافتہ دور میںعلمی وادبی تحقیق بہت حد تک آسان ہوگئی ہے،کیونکہ انٹر نیٹ ، کمپیوٹر اور ای میل جیسی برقی سہولیات نے پوری دنیا کو ایک عالمی گاوں میں مبدل کردیا ہے۔حالاں کہ ان تمام سہولیات کے سبب ادبی تحقیق میں بددیانتی کا باب بھی کھل گیا ہے۔اب اکثر ریسرچ اسکالردوران تحقیق تحریریں چرانے کاکام کرتے ہیں۔اس موقعے پہ اگر یہ کہا جائے کہ تحقیقی مقالے بھی دو طرح کے لکھے ہوئے سامنے آرہے ہیں،ایک ڈگری اور ملازمت کے لیے اور دوسرے علمی بصیرت کے لیے تو بے جا نہ ہوگا ۔ڈگری کے لیے لکھے گئے مقالے کاتا اور لے دوڈی کے زمرے میں آتے ہیں جب کہ علمی بصیرت والے مقالے محنت شاقہ کے غماز ہوتے ہیں۔ایسے تحقیقی مقالوں میں تحقیق کاروں کا خون جگر شامل رہتا ہے اور وہ تمام علمی وادبی عوامل وعناصر موجود ہوتے ہیں،جو ایک سنجیدہ قاری کومعلومات کے ساتھ ساتھ اسے ادبی چاشنی بھی فراہم کرتے ہیں۔مانا کہ عصر حاضر میںادبی تحقیق کا معیارکافی حدتک گر چکا ہے،لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے فکر انگیز مقالے مطالعے میں آرہے ہیں جوعلمی بصیرت سے تعلق رکھتے ہیں۔محمد مقیم انصاری کا تحقیقی مقالہ’’ترقی پسند اور مابعدجدید افسانہ(ایک تقابلی مطالعہ)‘‘علمی بصیرت کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
اردو افسانہ اپنے ارتقائی سفر کے دوران مختلف ادبی رجحانات دتحریکات سے گزر کرایک نئے رنگ ڈھنگ میں آگیا ہے۔اردو افسانے نے جہاں ایک زمانے میں اپنے قاری کو رومانی دنیا کی سیر کروائی ، تو پھر ایک زمانہ ایسابھی آیاکہ جب اس نے کسان،مزدور امیر و غریب ، ظلم و استحصال کے خلاف بغاوت کانعرہ بلند کیا۔لیکن جب اسے پروپیگنڈے کے طور پر برتاجانے لگا تو اس نے انسان کی خارجی زندگی کے بدلے داخلی زندگی کو اہمیت دی اور پھر جب افسانہ،افسانہ نہ رہ کر پہیلی کا روپ اختیار کرگیاتو اسے اپنے کہانی پن کے کھوئے جانے کا احساس ہوا۔تب اس نے کہانی پن کی جانب مراجعت کی اور اجنبیت کی تمام دیواروں کو مسمار کرکے اپنے قاری سے رشتہ استوار کیا۔آج اردو افسانہ ہنگامی سماج ومعاشرے کی ہوبہو عکاسی کرتا نظرآتا ہے۔تشویش ناک اور بھیانک حالات وواقعات کے منظر و پس منظر پیش کرنے میں بہت آگے نکل گیا ہے۔اس نے اظہار کے مختلف اسلوب کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔دراصل کہانی یا افسانے میں زندہ رہنے کے امکانات موجود ہیں۔ترقی پسند اور مابعد جدید افسانے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ترقی پسندافسانہ نگار سپاٹ بیانیہ کے ساتھ امیر وغریب،ذات پات، بھونڈے رسم ،ورواج، ظلم وزیادتی اور مارکسی نظریے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے افسانہ لکھتا ہے،جبکہ مابعد جدید افسانہ نگار موضوعاتی اور ہیئتی اعتبارسے قاری کو ایک نئے جہاں کی سیر کرواتا ہے۔یعنی ایک آزادانہ ذہنیت کے ساتھ وہ داخلی اور خارجی زندگی کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔گویا مابعد جدید افسانہ نگار کسی مخصوص تحریک یا رجحان کا قائل نہیں ہے۔
محمد مقیم انصاری کا تحقیقی مقالہ’’ترقی پسنداور مابعد جدید افسانہ(ایک تقابلی مطالعہ) اپنے موضوع کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔زیر نظر مقالے کے مطالعے سے اس بات کاانکشاف ہوتا ہے کہ مقالہ نگار نے محنت ولگن ، ذوق وشوق اور دیانتداری و ایمانداری سے کام کیا ہے۔مسودے کی صورت میں مذکورہ مقالہ۲۱۳ صفحات پہ مشتمل ہے۔ابواب کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:
پہلا باب۔ترقی پسندی اور مابعدجدیدیت
دوسرا باب۔نمائندہ ترقی پسند افسانہ نگار
تیسراباب۔نمائندہ مابعد جدید افسانہ نگاراور ان کی افسانہ نگاری
چوتھا باب۔نمائندہ ترقی پسند اور مابعد جدید افسانہ نگاروں کا تقابلی مطالعہ
پہلے باب میںکسی حد تک اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے تحت جو ادب دیا وہ اپنے دور میں بہت مقبول ہوا لیکن بعد میں یہ تحریک کسی حد تک روبہ زوال ہوگئی اور ایک نئی ادبی تحریک ’جدیدیت‘ کی صورت میں سامنے آئی جسے ترقی پسند تحریک کا انحرافیہ کہا جاسکتا ہے۔اسی باب میں اس وقت کی مختلف سماج کی اصلاحی تنظیموں کا بھی ذکر کیاگیا ہے۔مزیدبرآں پریم چند اور ان کے معاصرین کے ساتھ ساتھ متاخرین ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی بات کی گئی ہے۔مابعد جدید افسانہ نگاروں میں شوکت حیات،سیدمحمد اشرف،سلام بن رزاق،عبدالصمد،طارق چھتاری،حسین الحق ،ساجد رشید اور بیگ احساس کے علاوہ کچھ اور بھی نام ہیں جن کے افسانوں سے کہیں کہیں اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔
دوسرے باب میں چند اہم افسانہ نگاروں کا بطور خاص ذکر آیا ہے کہ جنھوں نے ترقی پسندی کے جذبے سے سرشار ہوکر ایسے افسانے لکھے جو اپنے دور کے نمائندہ افسانے کہلائے۔اسی طرح تیسرے اور چوتھے باب میںمابعد جدید افسانہ نگاروں کی افسانہ نگاری کے چند ایسے نمونے پیش کیے گئے ہیں جن کی قرات میں ہمیں موضوعاتی تنوع،واقعاتی تحیر،تدبر وتفکر آمیز کردارنگاری اور وحدت تاثر کے ساتھ چونکا دینے والا اختتامیہ نظرآتا ہے۔کئی مقامات پہ اگرچہ مقالہ نگار نے عجلت پسندی سے کام لیا ہے ،لیکن اس کے باوجود زیر نظر مقالہ فکشن کی تنقید بالخصوص اردو افسانے کے فن اور اسکی تنقید سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔میں صمیم دل سے محمد مقیم انصاری کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے یک اچھا تحقیقی مقالہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔میں خدا سے دعا گو ہوں کہ علم وادب کے ساتھ ان کا رشتہ دور اور دیر تک قائم ودائم رہے،آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموںوکشمیر)
موبائل نمبر9419336120