عبید انصاری ہدوی
انسانی زندگی میں تحائف کے لین دین یا تبادلے کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جاسکتا۔آج کے تیز رفتار دور میں جہاں انسانی جذبات کو مادیت پر فوقیت دی جاتی ہے ،تحفہ واحد ایسی چیز ہے جو نہ صرف آپکے جذبات کی بھرپورعکاسی کر تاہے بلکہ تحفہ وصول کرنے والے کو بھی آپکے احساسات کی قدر ہوتی۔تحفہ خوشی کا احساس دلاتا ہے۔لینے والے اور دینے والے دونوں کے ما بین محبت بڑھاتا ہے ۔تحائف کا تبادلہ دوستی ،تعلق اور رشتے کو مضبوط و مستحکم رکھتا ہے۔
تحفہ سے مراد کوئی بہت عمدہ اور اعلیٰ چیز ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز تحفہ ہے جو خلوص ومحبت کے ساتھ کسی کو پیش کی جائے چاہے وہ کوئی معمولی چیز ہی کیو ں نہ ہو ۔دیکھنے میں شاید وہ چیز چھوٹی،حقیراور معمولی محسوس ہواگر وہ تحفہ میں دی گئی تو وہ ہر گز حقیر نہیں ہو سکتی۔تحفہ ہر گز حقیر نہیں ہو سکتا،وہ اسلئے کہ جس آدمی نے آپکو تحفہ دیا ہے یہ آپ کے تئیں اسکے خیال اور تعلق کی علامت ہے،آپکے تئیں اسکے جذبات کا اظہار ہے۔یہ تحفہ دینے والے اور لینے والے کے آپسی یگانگی اور لگاؤکی یادگار ہے ۔تحفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوںایک دوسرے کو یاد رکھتے ہیںاور ایک دوسرے کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔تحفہ خود تحفہ دینے والے کی محبت کو اور تحفہ قبول کرنا قبول کرنے والے کی خوشی کو ظاہر کرتا ہے۔
تحفہ تعلق ومحبت ،عقیدت و احترام اور اعزاز و اکرام کے اظہار کا انتھائی لطیف و حسین ذریعہ ہے۔تعلقات کے استحکام اور رشتوں ،ناتوںکو تقویت دینے میں اس کا کوئی جواب نہیں۔یہ دلوں میں پیار والفت کو پیدا کرتا اور رنجش وغلط فہمی کے دبیز چادر کو بآسانی چاک کر دیتا ہے۔اسکے علاوہ حوصلہ و عزائم میں نئی روح پھونک کر اسے شکست و ریخت سے بچاتا ہے ۔حضورؐ نے تحفہ کی اپنے قول وفعل سے حوصلہ افزائی کی ہے۔آپ ؐنے ارشاد فرمایا ہے : ’’ مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ دور ہوگا ،ہدیہ کی تبادلہ کرو اس سے آپس میں محبت بڑھیگی اوربغض کا خاتمہ ہوگا۔‘‘ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’ آپس میں ہدیہ کا لین دین کرو کیونکہ اس سے دل کا بغض وکینہ دور ہوتا ہے۔‘‘رسول اللہ ؐکا ارشادِ گرامی ہے، ’’جو کوئی تمہارے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو تم بھی ا سے بھلائی سے جواب دو، اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کیلئے دعا کرتے رہویہا ںتک کہ تمہیں لگے کہ تم نے صحیح طور پر اسکا جواب دیا ہے۔‘‘(ابو داؤد،سنن نسائی)۔جب کوئی تمہیں کچھ دے یاتمہارا کوئی کام کردے تو تم اسے’’ جزاک اللہ خیراً‘‘کہہ کردعا دو ،جیسا کہ اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’جس کے ساتھ اچھا معاملہ کیا گیا ہو اور وہ اسکے بدلے میں جزاک اللہ خیراًبولے تو اس نے اسکا شکریہ ادا کرنے کی کافی کوشش کی ہے۔‘‘(جامع ترمذی)۔
در اصل تحفہ کسی چیز کا نام نہیںبلکہ تحفہ ایک انسانی عمل ہے۔تحفہ اس جذبہ کا نام ہے جو ہم ایک دوسرے کیلئے رکھتے ہیں ۔جب ہم کسی کو تحفہ پیش کرتے ہیں تو اصل میں ہم اس سے اپنے خلوص کے جذبے کا اظہار کرتے ہیں ۔تحفہ ایک ایسے پودے کا پھول ہے جو محبت کی زمین میں اُگتا ہے اور خلوص کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔ خوشی بانٹنے سے اس طرح بڑھتی ہے جس طرح زمیں میں بویا ہوا بیج فصل بنتا ہے اوریہی خوشی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے ’’تحفہ‘‘۔ہر انسان تحفہ لینا اور دینا پسند کرتا ہے ۔ہمارامذہب اسلام ایک مکمل دین ہے جس میںاسکے ماننے والوںکے لئے ہر چیز،ہر شیء کا طریقہ واضح طورپربتایا گیا ہے۔ اسلام نے ہمیں تحفہ سے متعلق امورمیںبھی رہنمائی کی ہے۔
آج کل کے اس بارونق و مصروف دنیا میں جہاں ہر انسان اپنے کام میں منہمک رہتا ہے اور بہت ہی دباؤ میں رہتا ہے، ایسے انسان کا اپنے رشتہ دار ،دوست واحباب سے تعلقات ،رشتے ناطے کو مضبوط و پختہ رکھنے کا ایک آسان طریقہ تحفہ ہی ہے ۔تحفہ کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ اسے قبول کیا جانا چاہئے۔اسی طرح کسی کو تحفہ دینے کے بعداسے واپس طلب کرنا برا فعل ہے ۔تحفہ واپس لینے کی بہت سی وعیدیں آئی ہے۔ تحفہ محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اور بہترین ذریعہ ہے ۔اس لئے تحفہ لینا اور دینا ہماری زندگی کا لازمی جز ہونا چاہئے ۔تحفہ پسند کرنا یا دینا ایک فن ہے۔کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ کونسی شئ بطور تحفہ منتخب کی جائے جو دوسروںکی تحائف کی موجودگی میںبالکل الگ نظر آئے ۔اسی طرح خوشی کا موقع فراہم ہوتے ہی ہم اپنے پیاروں سے یہ توقع کر رہے ہوتے ہیںکہ اس بار انکی جانب سے ہمیں کیا تحفہ ملنے والا ہے۔جیسے بچوں کا والدین سے ضد کر کے چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر تحفہ مانگنا اور اسی طرح والدین کا تحفہ دیتے وقت بچوں کی پسند کو مد نظر رکھنا ،انکی معصوم خواہشات کو پورا کرنا اور بچوں کی کامیابی پر ان کی پسند کے مطابق انعام یا تحفے سے نوازنا، اولادو والدین کے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا ہے ۔تحفے کا انتخاب کرتے وقت لوگوںکی دلچسپیو ں کا ضرور خیال رکھیں ،تحفہ عمر کے مطابق دیںتا کہ تحفہ سے استفادہ کیا جاسکے ۔تحفہ مسکراہٹ اور خوشی کے ساتھ وصول کریں اور شکریہ یا جزاک اللہ خیراًکہنا ہر گزنہ بھولیں ۔تحفہ اگر دینے والے کے سامنے کھولا جارہا ہے تو بھر پور انداز میں اسکی تعریف کرے۔اگرچہ سب کی موجودگی میں تحفوں کو کھولنا تہذیب کے خلاف ہے ۔کیونکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق تحفوں کا انتخاب کرتا ہے ۔ہوسکتا ہے کسی نے بہت زیادہ مہنگی شئ نہ دی ہو مگر پورے خلوص سے دی ہو،ایسی صورت میں دوسروں کی نظر میں اسے شرمندہ ہونے سے بچانا آپکا کام ہے ۔اگر آپ صاحب حیثیت ہیں اورآپ کے کسی قریبی عزیز یا دوست کے گھر خوشی کا موقع ہے تو اس موقع کی مناسبت سے سب سے پہلے ایک نگا ہ ان اشیاء پر ڈال لیں جس کو خرید نے کی وہ قوت نہیں رکھتے ۔اس طرح اگر وہ شئ اسکو تحفے کی صورت میں مل جائے گی تو نہ صرف اسکی ضرورت پوری ہوگی بلکہ خوشی بھی ہوگی۔ہدیہ کے طور پر کسی کو کوئی بھی چیز دی جاسکتی ہے، البتہ ہدیہ کے انتخاب میں موقع ومحل اور اس شخص کو ملحوظ رکھاجائے جسے ہدیہ دیا جارہا ہے تو اس سے اسکی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے۔ہدیہ کی سلسلے میں اسکی مادی قدرت و قیمت یا کمیت و کیفیت کااعتبار نہیں بلکہ اہمیت اس جذبہ وخلوص کی ہے جو اسکے پس پردہ کار فرما ہوتا ہے۔
آج کل ایک رواج عام ہے کہ کسی کو تحفہ دیتے وقت اسکی شخصیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اپنی حیثیت کو نہیں دیکھا جاتا۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں قیمتی نہیں بلکہ خوبصورت تحائف یادگار ہوتے ہیں ۔اگر آپکا خریدا ہوا تحفہ دیکھنے میں نفیس اور خوبصورت نہ ہو تو وہ بیکارہے پھر چاہے وہ کتنا بھی مہنگا کیوں نہ ہو۔ایک آدمی اپنے کسی دوست کو اسکے حیثیت کے لائق چیز نہیں دے سکتا تو کیا ہوا، جو اپنے حیثیت کے مطابق ہے وہ دے دے۔وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تحفہ کو نہ دیکھے بلکہ تحفہ دینے والے کی محبت کو سمجھے اور خوشی کا اظہار کرے جس طرح وہ قیمتی سے قیمتی ملنے پر کرتا ہے ۔(جاری)
رابطہ۔8087861775