ہمارامعاشرہ
رئیس یاسین
کشمیری معاشرے میں ایک ایسی سماجی رسم نے جڑیں پکڑ لی ہیں، جس نے برسوں سے گھروں کو خاموشی کے ساتھ بوجھ تلے دبا رکھا ہے۔ یہ رسم خوشی کے ہر موقع پر قیمتی تحائف دینے اور لینے کی ہے۔ چاہے کوئی بچہ دسویں یا بارہویں جماعت میں کامیاب ہو جائے، کوئی نوزائیدہ پیدا ہو، شادی ہو، کسی کو سرکاری نوکری ملے، ریٹائرمنٹ ہو یا ڈگری حاصل ہو،رشتہ دار اور دوست سونے، نقد رقم یا دوسرے قیمتی تحائف کے ساتھ پہنچتے ہیں۔ بظاہر یہ محبت دکھانے کا طریقہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک بھاری مالی بوجھ بن چکا ہے۔
تقریباً ہر گھر میں ان تحائف کا ایک ’’رجسٹر‘‘ رکھا جاتا ہے، جس میں نام اور رقم درج کی جاتی ہے۔ بعد میں جب وہی رشتہ دار یا دوست خوشی کا موقع مناتے ہیں، تو میزبان گھر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ وہ اُسی کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تحفہ واپس کریں۔ یوں رشتے محبت کی بجائے لین دین کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ خاص طور پر درمیانے طبقے اور غریب گھرانے اس بوجھ تلے پس جاتے ہیں۔ زمین بیچنا، قرض لینا یا استطاعت سے بڑھ کر سونا خریدنا ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔ خوشی کے بجائے یہ مواقع اکثر پریشانی اور بیزاری کا سبب بن جاتے ہیں اور کئی بار تو رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔
اسلام میں مگر سادگی، اخلاص اور غیر ضروری بوجھ سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن میں فضول خرچی سے روکا گیا ہے: ’’بیشک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا ناشکرا ہے۔‘‘ (سورۃ الاسراء، 17:27)۔ نبی کریمؐ نے تحائف کو محبت بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا لیکن دکھاوا کرنے سے منع فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تحائف کا تبادلہ کیا کرو، اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔‘‘ (الادب المفرد)۔ اس حدیث کا مقصد واضح ہے کہ تحفہ محبت کی علامت ہو، مقابلے یا بوجھ کی نہیں۔ پھل، مٹھائی یا خلوص بھری دعا دینا سنت کے زیادہ قریب ہے، بنسبت سونے یا بھاری نقدی کے۔ مگر افسوس کہ ہمارا معاشرہ سادگی سے دور ہو کر مادہ پرستی میں ڈوب چکا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارا پیسہ دکھاوے پر نہیں بلکہ ضرورت کے وقت استعمال ہونا چاہیے۔ جب کوئی بیمار ہو کر اسپتال میں اخراجات سے پریشان ہو، کوئی گھر مالی مشکلات سے دوچار ہو یا کوئی پڑوسی کڑے حالات سے گزر رہا ہو، تو یہی وہ وقت ہے جب ہماری مدد حقیقی قیمت رکھتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوں، اور اللہ کو سب سے محبوب عمل وہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوشی پہنچائی جائے یا اس کی کوئی مشکل دور کی جائے یا اس کا قرض اتارا جائے یا اس کی بھوک مٹائی جائے۔‘‘ (المعجم الاوسط)۔ ایسی مدد صرف انسانیت کا فریضہ نہیں بلکہ صدقہ ہے جو آخرت میں اجر کا باعث بھی بنتی ہے۔
اگر ہم اس کربناک رسم کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ابتدا ہمیں خود سے کرنا ہوگی۔ قرآن میں آیا ہے: ’’اور جس نے ایک جان کو بچایا گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘ (سورۃ المائدہ، 5:32)۔ آئیے ہم یہ عہد کریں کہ اپنے تحائف کو سادہ رکھیں، فضول مقابلے سے بچیں اور حقیقی وقتِ ضرورت میں دوسروں کا سہارا بنیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف بے شمار خاندانوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ ہمارے رشتوں میں اخلاص واپس آئے گا اور ہمارا طرزِ عمل اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق ہوگا۔
رابطہ۔ 7006760695
[email protected]