ایس معشوق احمد
ہر انسان کو اللہ رب العزت نے سوچنے اور غوروتدبر کرنے کی صلاحیت بخشی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اپنی مخصوص رائے ، منفرد خیال اور جدا نقط نظر کو بیان کرنے کی خوبی بھی عطا کی ہے۔یہ انسان معاملات دنیا کو دیکھنے ،سمجھنے ، پرکھنے کا اپنا زاویہ رکھتا ہے اور مذہب کے تئیں بھی اس کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے۔جب مذہب کا ذکر آتا ہے تو بعض افراد خاموش ہوجاتے ہیں وہیں دوسری جانب بعض کی زندگی فکر اور سوچ مذہب کے ہی ارد گرد رہتی ہے۔ ان کے اعمال اور افعال کا دار ومدار بھی مذہب پر ہی ہوتا ہے۔یہ نہ صرف پوری طرح مذہبی راہ اختیار کرتے ہیں بلکہ مذہبی روایات ،تہذیب و تمدن اور تعلیمات ان کے رگ رگ میں رچ بس گئی ہوتی ہیں۔ ایسے افراد جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے کلام اور تحریر میں اسلامی فکر کا پانا جانا اور قرآن کریم کے حوالہ جات آنا فطری ہے۔جب میں ایسے شخصیات کے بارے میں سوچتا ہوں جن کا ہر عمل مذہب کے عین مطابق رہتا ہے تو ذہن میں فورا ڈاکٹر الطاف حسین کا نام آتا ہے۔ڈاکٹر الطاف نہ صرف قلم و زبان کا موثر اور مفید ڈھنگ سے استعمال کرنے کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں بلکہ متنوع خصوصات کے حامل ہیں۔ایک مفکر ، کامیاب معلم اور صاحب اسلوب ادیب ہیں۔ان کی طبیعت میں نرمی، مقاصد میں بلندی ، جذبے والہانہ، اخلاق کریمانہ اور فہم و فراست سے پر شخصیت کے مالک ہیں۔دینی تعلیمات سے آگاہ ہیں، جس کی مثالیں ان کے مضامین میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مسئلہ اور موضوع کوئی بھی ہو ان کے یہاں اس کو دین سے جوڑ کر دیکھنے کی صحیح فکر ملتی ہے اور دین میں ہی اس کا حل نکالنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔نثر اور کبھی کبھار شاعری بھی کرتے ہیں اور اس کام کے لیے انہوں نے دو ناموں کا انتخاب کیا۔پہلے پہل نثری مضامین ڈاکٹر الطاف حسین کے نام سے اور گاہے گاہے شاعری ڈاکٹر عریف جامعی کے نام سے کرتے تھے، اب نثر میں بھی ڈاکٹر عریف جامعی کا نام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر الطاف حسین کے نام سے لطیف پیرائے اظہار اپنا کر اپنے خیالات حوالہ قرطاس کرتے ہیں اور جب عریف جامعی کے نام کا سہارا لیتے ہیں تو ان کی تحریروں میں جامعیت،واقف کاری اور تنظیم خود بخود آجاتی ہے۔
ڈاکٹر الطاف حسین ایک عرصے سے اپنے خیالات اور احساسات کی ترجمانی انگریزی زبان میں کر رہے ہیں اور انگریزی زبان میں ان کی تحقیقی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اردو کی محبت دل میں کیا رچ بس گئی کہ اسی زبان کے ہو کر رہ گئے اور نتیجتاً ” تجلیات معرفت “جیسی علمی اور بلند فکر کی حامل کتاب محبانہ اردو کو دے رہے ہیں۔ اس نثری مجموعے میں اکتیس متفرق مضامین اور دو تبصرے شامل ہیں۔یہ مذہبی فکر کے حامل مضامین وقتاً فوقتاً معروف اخبار کشمیر عظمی اور ” ہم سب” بلاگ پر شائع ہوئے ہیں۔
مذہبی موضوعات کو چھیڑنا سمندر میں تیرنے کے برابر ہے، ذرا سی لاپرواہی سے انسان ڈوب سکتا ہے۔ لیکن ماہر غوطہ خور پورا سمندر کھنگال کر موتی تلاش کر لاتا ہے۔ڈاکٹر الطاف نے ماہر تیراک کی مانند موتی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے ہیں اور انہیں ایک مالا میں ہنری مندی کے ساتھ پرویہ ہے۔یہ ان کا سلجھا ہوا اسلوب ہے کہ قاری اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا اور ان کی فکر کی گہرائی کا کرشمہ ہے کہ جزئیات کے ساتھ ساتھ باریک سے باریک بات کو بالتفصیل بیان کرتے ہیں۔یہاں اس امر کی طرف توجہ دلانا بے جا نہ ہوگا کہ ڈاکٹر الطاف علامہ اقبال اور مرزا غالب سے ازحد متاثر نظر آتے ہیں۔ان مضامین میں ان دونوں رفیع المنزلت شعراء کے اشعار کا برجستہ استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ اشعار پیوند کی طرح دور سے نہیں دیکھائی دیتے بلکہ اس فنکاری سے مصنف نے ان کو برتا ہے کہ یہ نثر کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور مصنف کے خیال کی وضاحت کے لیے معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے ان دونوں بلند پایہ شعراء کی لفظیات اور تراکیب سے بھی استفادہ کیا ہے اور بعض مضامین کے عنوانات ان کے اشعار سے ہی اخذ کئے ہیں۔ان مضامین کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر موصوف نہ صرف اسلام کی شاندار تاریخ ، اس کی پرکیف بہاروں ، ہادی برحق رسول رب العالمینؐ کی تعلیمات ، خیر البشرؐ کے کردار، امت کے شفیق ، غم خوار اور محسن انسانیت کے احادیث مبارکہ ، انبیاء کی استقامت اور جذبہ ایمان سے واقف نظر آتے ہیں بلکہ عصر حاضر میں امت کے حالات ، مسائل اور پریشانیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان مسائل کو دیکھ منہ نہیں موڑتے بلکہ سوجھ بوجھ کے ساتھ ان سارے معاملات پر غور و فکر کرتے ہیں اور ان کا حل لے کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
انسان کو حق کی معرفت حاصل ہوجائے تو معرکہ خرد و جنوں کی نوبت نہیں آتی۔جب قافلوں کی نگہبانی کا فریضہ معلم اور لامحدود صلاحیتوں کے مالک کو سونپی جائے اور زندہ کتاب قرآن حکیم کو اپنا رہنما و رہبر بنایا جائے ، ذبح عظیم کو یاد کیا جائے ،خلق عظیم اور اسوہ حسنہ کو زندگی کا جزو لاینفک بنایا جائے اور صادق الامین کو اپنا رہبر بنایا جائے ، زکوۃ کو پاکیزگی کی شاہراہ عظیم مان کر قناعت شعاری کو شعار بنایا جائے ، معراج النبی کی عظمت اور لیلتہ القدر کی فضلیت قرآن کریم سے ثابت کی جائے ،عید الفطر کی مسرت اور داستان حرم ، باہیل سے سیدنا حسین کی داستان فرات کنارے سنائی جائے ، مولانا رومی کا نظریہ تعلیم ،میر علی ہمدانی اور شیخ نور الدین کا نور ، علم و اخلاق وادی زمزم سے وادی جہلم تک پھیل جائے اور علامہ اقبال کا تصور ذکر و فکر حوالہ قرطاس کیا جائے تو اندازہ کرلینا چاہیے کہ امت نہ اپنا ماضی بھولی ہے اور نہ وہ شاندار تاریخ بلکہ اس میں ایسے جیالے موجود ہیں جن کے قلم سے تجلیات معرفت جیسی تصانیف وجود میں آکر فکر کو بیدار اور ذہن و دل کو ہوشیار کردیتی ہے۔یہ کتاب اپنے اندر تروتازگی ، رنگا رنگی اور معلومات کا خزانہ سموئی ہوئی ہے۔ان موضوعات پر لکھنا اور فکری تسلسل کو قائم رکھنا ذہنی زرخیزی ،اعلی فکر اور وسیع مطالعہ کی غماز ہے۔یہاں تخلیقی زبان کا رچاؤ ، سنبھلا ہوا اسلوب، سنجیدگی ، محنت اور خلوص، بلند فکری ، دلائل کے ساتھ قرآنی حوالے موجود ہیں جو ان مضامین کی وقعت میں اضافہ کرتے ہیں۔علامہ کا شعر ہے کہ _؎
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
ڈاکٹر الطاف کے تخیل میں حور و فرشتے اسیر نہیں اور نہ ہی ان کی نگاہ سے تجلیات میں کوئی خلل واقع ہو رہی ہے بلکہ وہ تو ان تجلیات کے خواہ ہیں ،جن سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ان مضامین کے مطالعے سے عرفان ذات سے شناسائی کا راستہ ہموار ہو نہ ہو ایسے انوار سے ذہن ضرور منور ہوگا جن سے ذہن کے بند دریچے کھل جائیں گے اور فکر نو کی تازہ ہوا اذہان کے اندر جائے گی۔عصر حاضر میں ایسے رواں اور محرک تفکر مضامین معاشرے کو بدلنے میں معاون ثابت ہوں گے اور قوی امید ہے کہ ان مضامین سے ایک وسیع حلقہ فیض یاب ہوگا۔
رابطہ۔ 8493981240
ای میل۔ [email protected]