میں بطور ہندو نہیں مروں گا‘‘ آئین ِ ہند کے خالق بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر نے یہ اعلان ہزاروں کےمجمع کے سامنے 13 ؍اکتوبر 1935 کے دن ناسک سے متصل یلوا میں کیا۔ بمبئی اور دیگر صوبوں سے اچھوت مہار ذات کے پیروکار’’ ڈپریسڈ کلاسز‘‘ (Depressed Classes ) کی طرف سے منعقدہ اس کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے امبیڈکرنے یہ صاف کر دیا کہ ان کو اب ہندودھرم سے کوئی اُمید نہیں ہے اور اچھوتوں کے لئے مذہب تبدیل کرنے اور مساوات پر مبنی کسی اور مذہب کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
سال ہا سال کی جدوجہد اور ستیہ گرہ کے بعد ، امبیڈکر یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ ہندو مذہب میں اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔ نہ صرف مندر تحریک ناکام ثابت ہو رہی تھی بلکہ اچھوتوں کو مندر میں داخلےکی اجازت کے لیے بنائے گئے بہت سارے قوانین کو بھی قانون ساز اسمبلی میں پاس ہونے نہیں دیا گیا۔ ہندو مذہب کے پیشوا اور پروہت اچھوتوں کو برابری کا حق دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ لہٰذا امبیڈکر کو یہ کہنا پڑا کہ ہندو مذہب چھوت چھات جیسے غیر انسانی رواج کو واجب قرار دیتا ہے،اس لئے یہ منفی چیز ہندو سماج کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ اچھوتوں کی بدقسمتی ہے کہ انہیں ہندو کہا جاتا ہے۔ اگر وہ دوسرے مذہب میں پیدا ہوئے ہوتےتوانہیں چھوت کا کلنک نہیں جھیلنا پڑتا۔ بالآخر امبیڈکر نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ وہ کوئی بھی ایسا مذہب قبول کر لیں جو ان کو برابری کا درجہ دیتا ہو مگر جو بات ہندو قدامت پسندوں اور برہمنی نظریہ کے حامل لوگوں کو اپنے اوپرسب سے بڑی چوٹ محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ امبیڈکر نے اچھوتوں سےکہا کہ وہ اپنی ’’غلطی‘‘ دور کریں ۔ یہ تب ہی ممکن تھا جب وہ کوئی اور دھرم اختیار کرتے۔ انہوں نے مزید کہا ’’میری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ مجھے اچھوتوں میں پیدا ہونا پڑا ہے، جس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے مگر یہ میرے اختیار میں ہے کہ میں بطور ہندونہ مروں‘‘۔
جب یہ بات گاندھی جی تک پہنچی، تو اس پر انہوں نےافسوس کا اظہار کیا۔ گاندھی جی کی رائے تھی کہ دنیا کے سبھی مذاہب ایک ہی درس دیتے ہیں ،اس لئے مذبب تبدیل کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مذہب بدلنے کے بجائےلوگوں کو اپنے مذہب کے عقائد اور تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ اس لئے وہ مذہب بدلنے کو چھوت چھات کے مسئلہ کا حل نہیں مانتے تھے۔امبیڈکر گاندھی کی یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ہم سب کو اپنے آباء و اجداد کے مذہب کو کسی بھی صورت میں ترک نہیں کرنا چاہئے۔اپنے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے امبیڈکر نے کہا کہ کسی بھی مذہب کا اصل مقصد سماجی و اجتماعی زندگی سے متعلق ہوتا ہے، جس کا ایک سماجی مقصد اور سماجی رول ہوتا ہے۔دوسرے الفاظ میں کہیں تو مذہب کا رول ایک اجتماعی زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ہندو مذہب کا اصل مقصد ہندو سماج سے جڑا ہوا ہے، اگر اچھوت ہندو ہیں، تو اُن کویہ سوال کرنے کا حق ہے کہ ان کو ہندو مذہب نے ہندو سماج میں کیا مقام دیا ہے؟ ان کو یہ سوال بھی کرنا چاہئے کہ اچھوت سماجی غیر برابری کیوں جھیل رہے ہیں ؟ امبیڈکر کی نظر میں جس مذہب میں انسان کو برابری نہ ملے اور انسانوں سے بھید بھاؤ کر کے جانور جیسا سلوک ہو، اُسے ترک کر دینے میں ہی نجات ہے۔امبیڈکر نے ایک لمبے عرصہ تک مذہب بدلنے کی بات تو کھلے عام کہی، مگر اس پر کچھ نہیں کہا کہ اچھوتوں کو کس مذہب کو اپنانا چاہئے۔ کیا انہیں عیسائیت کو قبول کرنا چاہئے؟ کیا انہیں سکھ یا بدھ مت کے آغوش میں چلے جانا چاہئے؟ کیا اُنہیں دین اسلام پر ایمان لا کر اپنی زندگی گزارنی چاہئے؟
بے شک اسلام سے امبیڈکر بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔انھوں نے سال1929 میں جالے گاؤں جلسے میں اچھوتوں کو نیا مذہب اختیار کرنے کی بات کہی تھی، اس کے بعد ایک مہینے میں کئی اچھوتوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ اچھوتوں کو کون سا مذہب قبول کرنا چاہئے،اس موضوع پر بہت سارے اجتماعات منعقد ہوئے۔مسلم داعیان اور علمائے اسلام نے اس طرح کے پروگراموں میں حصہ لیا اور امبیڈکر اور ان کے پیروکار کو دعوت اسلام دی۔اسلامی دنیا بھی امبیڈکر کی اس تحریک پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ اکتوبر1935 میں ہی خلافت مرکزی کمیٹی کے نمائندہ مولانا محمد عرفان نے امبیڈکر سے ملاقات کی اور ان کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگر وہ مشرف بہ اسلام ہوگئےتو اُن کے ساتھ مسلمان نہ صرف برابری کا سلوک کریں گے بلکہ وہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کے رہنما بھی تسلیم کئے جائیں گے۔ اس دوران مولانا احمد سعید ، جن کا تعلق انڈین ایسوسی ایشن آف علماء سے تھا ، نےامبیڈکر کو تار بھیج کر اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام ایک فطری دین ہے اور اس مذہب کو اپنانے کے بعد ان کی ُاُمیدیں پوری ہوں گی ۔ عربی پریس نے بھی اس معاملے میں کافی دلچسپی دکھائی ۔یہی نہیں بلکہ قاہرہ کے مسلمانوں نے فنڈ جمع کیا اور امبیڈکر کی اس تحریک کی حمایت کی ۔ یہاں تک کہ الازہر یونیورسٹی مصر کے ریکٹر نے اعلان کیا کہ اگر اچھوت طبقہ دین اسلام میں داخل ہو تے ہیں تو اُن کے لئے پردہ اور ختنہ لازم نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثنا 21؍سالہ ایک مسلم نوجوان،جو بعد میں چل کر ہندوستان کا ایک عظیم مورخ ، عربی زبان کے ممتاز ادیب کے طور پر پوری دنیا میں مشہور ہوتا ہے ، امبیڈکر کو دعوت اسلام دینے کے لیے سفر ممبئی پر نکل پڑتا ہے ۔یہ اکتوبر 1935 کی بات ہے، امبیڈکر اُس وقت ممبئی میں مقیم تھے اور وہاں ایک کالج کے پرنسپل تھے۔اس نوجوان کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچائیں ۔ یہ نوجوان انگریزی کی کچھ دعوتی تبلیغی کتابیںا ور رسائل لے کر نکل پڑا۔ صبح سویرے دادری میں واقع امبیڈکر کے بنگلہ پر پہنچ گیا، مگر اُسے یہ پتہ چلا کہ امبیڈکر ہوا خوری کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ انتظار کے بعد امبیڈکر نے نوجوان کو اپنے ریڈنگ روم میں بلایا ۔ ان کے ریڈنگ روم میں بہت ساری کتابیں موجود تھیں، جن میں’’ ترجمان القرآن‘‘ بھی شامل تھا۔ اسلام کی دعوت دیتے ہوئے اس نوجوان نے ایک سیدھے سادے مسلمان اور خالص داعی کی حیثیت سے صاف صاف لفظوں کہا : ’’ڈاکٹر صاحب ! آپ سے مختلف مذاہب کے بڑے بڑے لوگ ملے ہوں گے اور انہوں نے اونچی اونچی باتیں کہی ہوں گی ، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو اپنی برادری (commmunity) کی نجات کی فکر ہے اور خلوص کے ساتھ صحیح مذہب کی تلاش ہے تو میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘ یہ نوجوان سید ابو الحسن علی الحسنی الندوی تھےجن کو دنیا علی میاں ندوی مرحوم کے نام سے جانتی ہے۔
امبیڈکر نے تبدیلیٔ مذہب کے بارے میں حتمی فیصلہ لینے میں تقریبا ~20 سال کا انتظار کیا۔ اپنی وفات سے دو مہینہ قبل وہ اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ ناگپور میں جمع ہوئے اور پوری دنیا کے سامنے ’’بدھم شرنم گچھا می‘‘ الاپااور اس طرح انہوں نے اجتماعی طور بدھ مذہب کو قبول کر کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے حمایتیوں کے ساتھ بدھ مت کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اپنانے کی قسم بھی لی ۔ بدھ مت کی جو تشریح امبیڈکر نے کی، اس میں دیوی دیوتاؤں کے بت پوجنےسے ممانعت ، خدا کے جنم اور اس کے پنر جنم سے انکار، برہمنی رسومات سےدوری ، مساوات کے نظریہ میں یقین، جھوٹ بولنے، چوری کرنے او رشراب پینے سے پرہیز وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے اہم بات جو امبیڈکر نے بدھ مذہب کے حوالے سے کہی وہ یہ تھا کہ بقول ان کے بدھ مت منطق پر مبنی مذہب ہے ، جس میں اِیشور کے وجود پر بھی سوال کیا گیا ہے۔بابا صاحب کی تحریک کی وجہ سے بھارت میں بدھ مت کا احیائے نو ہوا ۔ یہاںپچاسی لاکھ بدھ مت کے پیروکار رہتے بستے ہیں۔ٹھیک62 سال پہلے مبیڈکر کی وفات ہوئی تھی ، تب بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے بدھ مذہب کو قبول کیاتھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
نوٹ :مضمون نگار جے این یو میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔
ویب رابطہ :abhaykumar.org