تمل ناڈو کی سیاست روز انہ کے حساب سے کروٹ لے رہی ہے۔وہاںکب کیا ہو جائے گا وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا؟سیاسی پنڈتوں کی کوئی بھی قیاس آرائی بے معنی اور بے سمت ہو سکتی ہے کیونکہ جے للتا کے انتقال کے بعد گزشتہ ایک برس میں وہاں کی سیاسی دھماچوکڑی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ وہاںکے عوام کی تو کسی کو پروا نہیں ہے، البتہ اِن سیاسی لیڈروں کی اپنی اپنی پڑی ہے اور سب چاہتے ہیں کہ اعلیٰ عہدے پر متمکن رہیں یا ہو اس پر قابض ہواجائیں۔بس اسی کی ایک ہوڑ مچی ہے کیونکہ کوئی بھی دوسری صف میں رہنے کو تیار نہیں ہے ۔اس وجہ سے ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ جے للتا نے تمل ناڈو میں جو سیاسی امپائر کھڑا کیا اُس کے دعویدارکئی ایک ہو گئے لیکن ابھی ابھی جو آر کے نگر کا ضمنی انتخاب ہوا ہے اور ٹی ٹی وی دیناکرن جہاں سے فاتح بن کر اُبھرے ، اُس وقت سے وہاں کی سیاست میںمزید ہلچل پید ہوا گئی ہے اوراُنہیںجے للتا کے اصلی وارث کے روپ میں دیکھا جانے لگا ہے ۔ یہ سیٹ جے للتا کے پاس ۳؍دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک یعنی تادم ِ زیست رہی۔دینا کرن کے مقابلے میں برسرِاقتدار آل انڈیا انا ڈی ایم کے مدھوسودھنن کی بری طرح شکست ہوئی ۔یہ مدھوسودھنن سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ نائب وزیر اعلیٰ پنیرسیلوم(اِی پی ایس) کے تجویز کردہ امیدوار تھے بلکہ اُن ہی کے گروہ کے تھے۔کرونا ندھی کے ڈی ایم کے امیدوار مَرُدو گنیش تیسرے نمبر پر رہے لیکن اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔ اب یہ کہنازیادہ مناسب ہوگا کہ ایم کے اسٹالن کی پارٹی ڈی ایم کے کے وہ امیدوار تھے، و ہی (اسٹالن)اب اِس پارٹی کے کارگزار صدر ہیں کیونکہ کروناندھی سخت علیل ہیں۔جس روز ووٹ ڈالے جا رہے تھے اُسی دن ۱۰؍بجے ۲؍جی نام نہاد گھپلے کا فیصلہ آگیا جو ڈی ایم کے کی حمایت میں تھالیکن رائے دہندگان نے اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا۔انہیں جے للتا کے سوا انہیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھااور وہ ہمدردی کے لہرسے متاثرہ آزاد امیدوار دینا کرن کو ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بی جے پی کو صرف ۱۲۰۰؍ووٹ ملے جو نوٹاسے بھی کم تھے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی تمل ناڈو میں کیا حیثیت ہے۔ بی جے پی نے جے للتا کے سورگباش ہونے کے بعد ہی سے وہاں اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا تھا۔جے للتا کے بعد اُن کی دست راست ششی کلا نے پارٹی کا کمان اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے جے للتا کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ پنیر سیلوم کو ہٹا یا اور اپنے پسندیدہ پلان سوامی(او پی ایس) کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔اُس وقت پنیر سیلوم نے بغاوت کی اور ۱۲۔۱۰؍ ایم ایل ایز کے ساتھ الگ ہو گئے اور اسمبلی میں فلور ٹیسٹ کے لئے گورنر سے رجوع بھی کیا۔کارگزار گورنر ودیاساگر راؤ نے اس کی اجازت بھی دے دی لیکن پلان سوامی کامیاب و کامران نکلے یعنی اُس وقت آل انڈیا انّا ڈی ایم کے دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ششی کلا کو جیل ہو چکی تھی، وگرنہ وزیر اعلیٰ وہی ہوتیںکیونکہ گورنر موصوف نے مرکز کے اشارے پر تاخیر برتنے میں چابک دستی دکھائی۔اُس کے بعد ششی کلا اور دیناکرن کے ٹھکانوں پر تقریباً ۲۰۰؍ چھاپے سی بی آئی،اِی ڈی اور انکم ٹیکس کے پڑے،بعد میں یہ بھی ہوا کہ پلان سوامی اور پنیر سیلوم ایک ہو گئے اور دونوں نے مل کر ششی کلا اور دیناکرن اور ان کے حامیوں کو پارٹی کے پارٹی سے بر طرف کر دیااور اس میں مرکزی سرکار کی گندی سیاست سے مفر نہیں کیونکہ جب نریندر مودی حکومت کے کابینہ کی توسیع عمل میں آرہی تھی اُس وقت یہ خبر زور وشور سے گردش کر رہی تھی کہ آل انڈیا انا ڈی ایم کے کو بھی مرکزی کابینہ میں جگہ دی جائے گی لیکن آخری لمحے میں اس کو وزارتی نمائندگی سے محروم کر کے مودی نے سب کو چونکا دیا تھا۔بات در اصل یہ تھی کہ بھاجپا کے سیاسی سورما بھی اندازہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اس کے بعد دیناکرن (اور ششی کلا) کو بغاوت کرنا ہی تھااور وہ ۲۲۔۲۰؍ایم ایل ایز کے ساتھ الگ ہو گئے اور اپنے تمام ایم ایل ایز کوپانڈیچیری میں ایک ریسورٹ میں رکھا اور گورنر سے فلور ٹیسٹ کی مانگ کی لیکن گورنر صاحب نے مہینوں اس کی اجازت نہیں دی ۔یاد کریں کہ کس طرح پنیر سیلوم کو ۱۲۔۱۰؍ایم ایل ایز کے ساتھ فلور ٹیسٹ کی اجازت دے دی تھی کیونکہ گورنر موصوف نے ہر وقت یہ ثابت کیا کہ وہ مرکز کے اشارے پر کام کر رہے ہیں اور تمل ناڈو میں جو سیاسی اُتھل پتھل ہو رہی ہے اُس کے وہ(اور مرکزی حکومت) ساجھے دار ہیں۔اس کے بعد اسپیکر نے دینا کرن کے تقریباً ۱۸؍ ایم ایل ایز کو نااہل قرار دے دیا اور اب یہ مقدمہ مدراس ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔خیر سے تمل نادو میں اب ایک کل وقتی گورنر آگئے ہیں لیکن اب عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے۔آر کے نگر کا یہ ضمنی انتخاب اپریل میں ہونے والا تھا لیکن الیکشن کمیشن کو اسے ملتوی کرنا پڑا تھا کیونکہ اسے شکایتیں موصول ہوئی تھیں کہ ووٹروں کو بھاری رشوت دی جا رہی ہے۔اس کے چند مہینوں بعددیناکرن پارٹی کا نشان حاصل کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کے ایک افسر کو رشوت دینے کے ملزم بھی قرار دئے گئے اور انہیں اس میں جیل بھی ہوئی اور وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔اگرچہ پارٹی کا سمبل تو اُنہیں نہیں مل سکا لیکن انہوں نے یہ ضمنی انتخاب جیت کر بی جے پی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اب کیا کرے۔
چونکہ بی جے پی کا کوئی بنیادی انفرا اسٹرکچر تمل ناڈو میں نہیں ہے لیکن اِس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امیت شاہ سیاسی دنگل کے ایک کامیاب پہلوان ہیں ۔انہیں پتہ ہے کہ ۲۰۱۴ء کے عام چناؤ میں بی جے پی ایک سیٹ کنیا کماری سے جیت چکی ہے اور ویلور،کوئمبٹور اور پلّاچی میں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمام سیٹوں پرپہلے نمبر پر آل انڈیا انا ڈی ایم کے رہی البتہ کنیاکماری میں کانگریس دوسرے نمبر پر تھی۔تمل ناڈو میں کُل ۳۹؍ نششتیں ہیں جن میں ۳۷؍ پر آل انڈیا انا ڈی ایم کے قابض ہے۔خیر سے امیت شاہ تمل زبان بھی سیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ عجوبہ کرنا چاہتے ہیں۔رجنی کانت بھی ۳۱؍دسمبر کو اپنی نئی پارٹی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ان کا سیاست میں داخلہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے کیونکہ کمل ہاسن بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ اُن کارنگ گیروا نہیں ہے۔ممکن ہے کہ تمل ناڈو میں اس بار پنچ یا شش رخی مقابلہ ہو اور اس کے لئے بی جے پی زمین بھی تیار کر رہی ہے۔ایسے مقابلوں سے بی جے پی کو ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بھی بہت حد تک ممکن ہے کہ بی جے پی دینا کرن سے انتخابی سمجھوتہ کر لے کیونکہ وہ دیکھ رہی ہے کہ دینا کرن ہی اب اصلی چیلنج ہوں گے۔سیاست میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ ڈِیل کے تحت کام انجام دئے جاتے ہیں ۔دینا کرن اور ششی کلا روز روز کے چھاپوں سے حد درجہ پریشان ہو چکے ہیں اور انہیں بھی شانتی چاہئے جو بی جے پی مہیا کرا سکتی ہے ۔اِس تناظر میں تیجسوی یادو کی وہ بات بہت پسند کرنے کے لائق ہے کہ ’’چارہ گھوٹالہ کی جگہ اگر بھائی چارہ گھوٹالہ ہو جائے تو لالو جی بڑے آرام سے محوِ سفر رہ سکتے ہیں۔‘‘ تیجسوی کا اشارہ یہ تھا کہ اگر ہم لوگ بھی بی جے پی سے مفاہمت کر لیں تو گھڑی گھڑی کے کورٹ کچہری کے چکرسے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
دیناکرن تو ششی کلاکے بھتیجے ہیں اور ششی کلا کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جے للتا کے لئے(بہت تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر) وہی سب کچھ تھیں۔اِس رو سے ششی کلا اور پھر دینا کرن خود کو اُن کا قریبی اور وارث باور کرانے میں جب سے لگے ہوئے تھے اور یہ موقع اِس ضمنی الیکشن نے انہیں فراہم کر دیا ۔اِس تمام قضیے میں دیکھیں گے تو پتہ یہ چلے گا کہ سیاست دان ہی اہم ہیں اور عوام بیچارے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں صوبے کے تمام ترقیاتی منصوبے دھرے کے دھرے ہیں اور نئے منصوبے تو بنائے ہی نہیں جارہے ہیں۔پھر نہ جانے ہمارے ملک میں کس ترقی کی بات چل رہی ہے؟ترقی کا مالا جپنے والوں نے ہی تمل ناڈو کی اِس غیر یقینی حالت کو شہ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی حالات کو مزید خراب کرنے کے درپے ہیںتو کسی اچھائی کی کیسے امید کی جا سکتی ہے؟ اپنے مفاد کے لئے اور اپنی پارٹی اور اپنی نظریہ ساز تنظیم کے فائدے کے لئے ملک کے ساتھ ساتھ صوبوں کو بھی داؤ پر لگا دینے میں کوئی ہچکچاہت جب محسوس نہ ہوتو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آگے کی ڈگر بہت کٹھن ہے لیکن ملک کو بچانے کے لئے سرکردہ افراد کو آگے آنا ہی ہوگا۔ ہندوستان کے چند صوبوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام خطوں میں علاقائی پارٹیاں ہیں۔ہندوستان کو متحد رہنے کے لئے علاقائی پارٹیوں کا وجود ناگزیر ہے یا نہیں ،اِس پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883