فکر و ادراک
آسیہ جان
رات کی تنہائی میں جب کسی کمرے سے موبائل کی روشنی چھن کر باہر آتی ہے تو بظاہر یہ منظر عام سا لگتا ہے مگر درحقیقت یہ ایک المیے کی علامت ہے۔ یہ منظر اس قوم کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہ بچہ جو کبھی کتاب کھول کر پڑھتا تھا، جو کبھی ماں کی گود میں قرآن کے حروف دہراتا تھا، آج اسکرین پر بے حیائی کے مناظر دیکھتے دیکھتے اپنی معصومیت اور اپنی پہچان کھو رہا ہے۔ یہ صرف ایک بچے کا قصہ نہیں، یہ پورے معاشرے کا نوحہ ہے۔ ہم یہ سوچے بغیر اپنے بچوں کو ایسے راستے پر ڈال رہے ہیں ،جس کا انجام صرف اندھیرا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کے مستقبل کو کیا دے رہے ہیں اور کس کے حوالے کر رہے ہیں؟
ہمارے بچے جنہیں علم کے موتی چننے تھے، جنہیں تہذیب و شرافت کے زیور سے آراستہ ہونا تھا، آج وہ گانوں کے بے ہودہ بول یاد کرنے اور فلموں کے مناظر ذہن میں بٹھانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ قرآن ان کے لیے اجنبی ہو چکا ہے، سیرتِ نبوی ؐ ان کے لیے ایک دور کی بات ہو گئی ہے، بڑوں کی عزت و ادب ان کی لغت سے نکل چکا ہے۔ وہ اپنی پہچان بھول بیٹھے ہیں اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو علم و شعور نہیں بلکہ غفلت اور بے سمتی کے حوالے کر رہے ہیں۔
اکثر والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف اسکول کا کام ہے۔ یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ اسکول علم کا کچھ حصہ فراہم کر سکتا ہے لیکن اصل تربیت ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ جب ماں کی لوری میں قرآن کی آیات کی جگہ موبائل کے گانے آجائیں، جب باپ کی نصیحت کی جگہ ٹی وی کے ڈرامے لے لیں، جب گھر کی محفلوں میں علم و ادب کے بجائے محض ہنسی مذاق اور وقت گزاری ہو، تو پھر بچے کہاں سے اپنا راستہ درست کریں گے؟ ماں باپ کی یہ غفلت دراصل اپنی اولاد کو گمراہی کے حوالے کرنا ہے ۔ بچے رات رات بھر جاگ کر موبائل کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں، والدین بے خبر ہوتے ہیں یا یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ یہ ان کی ذاتی زندگی ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ یہ ذاتی زندگی نہیں، یہ آنے والی نسل کی اجتماعی تباہی ہے۔ وہ بچے جو آج علم سے غافل ہیں، کل کو اسی قوم کے معمار ہوں گے۔ وہ بچے جو آج قرآن سے ناآشنا ہیں، کل کو والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بننے کے بجائے باعثِ ندامت ہوں گے۔ وہ نسل جو آج اپنی پہچان بھول رہی ہے، کل کو اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنے دین سب کچھ بھلا دے گی۔ ہم سوچتے بھی نہیں کہ ہم کس اندھے کنویں کی طرف انہیں دھکیل رہے ہیں۔ یہاں پر ہمیںبا لخصوص علامہ اقبال کے ان الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
یہ سوال پھر دل کو جھنجھوڑتا ہے کہ ہم اس قوم کو کیا دے رہے ہیں؟ ہم اپنی اولاد کو کس کے حوالے کر رہے ہیں؟ ایک ایسی دنیا کے حوالے جو ان سے علم چھین لے، قرآن کی روشنی بجھا دے، بڑوں کی عزت ختم کر دے اور ان کے ہاتھ میں صرف ایک اسکرین تھما دے؟ اگر یہی ہمارا ورثہ ہے تو یہ سب سے بڑی خیانت ہے جو ہم اپنی نسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں تربیت کی بنیاد دوبارہ قائم کریں۔ ہمیں بچوں کی مصروفیات پر نظر رکھنی ہوگی۔ ان کے دوستوں، ان کی عادات، ان کے دن رات کا حساب لینا ہوگا۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ ’’ہمیں تو پتہ نہیں تھا۔‘‘
یہ غفلت دراصل والدین کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اولاد اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کو ضائع کرنا سب سے بڑا جرم ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں قرآن کی آواز کو زندہ کرنا ہوگا، سیرتِ نبویؐ کا تذکرہ عام کرنا ہوگا، علم و ادب کی محفلیں سجانی ہوں گی۔ صرف اسی طرح ہم اپنی اولاد کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
اگر آج ہم نے اپنی سمت درست نہ کی تو کل یہ بچے نہ اپنے بڑوں کو پہچانیں گے نہ اپنے دین کو۔ وہ نہ تہذیب جانیں گے نہ علم۔ وہ صرف ایک ایسی بھیڑ بن جائیں گے جسے مغربی تہذیب اور میڈیا جہاں چاہے ہانک لے جائے۔ پھر ہم پچھتائیں گے، مگر پچھتاوے کا وقت بھی ختم ہو چکا ہوگا۔
آخر میں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس ورثے کے امین ہیں؟ ہم اپنی اولاد کو قرآن، علم اور تہذیب کے حوالے کریں گے یا انہیں محض موبائل کی غلامی اور اندھیروں کے حوالے کریں گے؟ فیصلہ آج کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر آج ہم نے اپنی غفلت نہ توڑی تو آنے والا کل ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے جو نسل پروان چڑھ رہی ہے وہی کل کا کشمیر اور کل کا عالمِ اسلام ہے۔ اگر ہم نے انہیں نہ سنبھالا تو ہم تاریخ کی سب سے بڑی غفلت کے مجرم ہوں گے اور ہماری آنے والی نسل ہماری یاد کو بھی بھلا دیں گی۔ یہی سب سے بڑی سزا ہوگی۔