Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

تاخیر سے شادی کے منفی نتائج معاشرت

Mir Ajaz
Last updated: October 26, 2022 12:07 am
Mir Ajaz
Share
11 Min Read
SHARE

ہارون ابن رشید

اسلام میں دیر سے شادی کرنا حرام ہے، اور یہ مقدس ملاپ سب سے زیادہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کوئی شخص بلوغت میں داخل ہوتا ہے۔ موجودہ دور کی نوجوان نسل میں تاخیر سے شادی کرنے کا رجحان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب اسے فیشن گردانا جانے لگا ہے۔ اس معاملے میں بالعموم ہمارا معاشرہ اور بالخصوص والدین قصور وار ہیں۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے بلوغت پران کی شادی کروائیںتاکہ وہ معاشرتی مسائل اور بے راہ روی سے محفوظ رہ سکیں۔ظاہر ہے کہ سن بلوغت کی عمر،جوانی کی وہ حد ہوتی ہے جس میں مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی خواہش محسوس ہونی شروع ہوجاتی ہے۔اس لئے اس عمر میں دونوں کے لئےشادی ایک لازمی ضرورت بن جاتی ہے۔
شادی ایک سماجی معاہدہ ہے ،جو کمیونٹی میں پیار اور وابستگی کا احساس قائم کرتا ہے۔یہ ایک طاقتور معاہدہ کے طور پر قابل نفاذ محبت کا ، قانونی طور پر تسلیم شدہ شراکت کا اور قانونی طورپر قبول شدہ ایک معاہدہ ہوتا ہے، جس میں نوجوان جوڑے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یعنی شادی ایک ثقافتی معاہدہ ہے جو متناسب مخالف پرجاتیوں کو مشترکہ طور پر رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے نہ صرف مرد اور عورت کے درمیان ایک آئینی ربط رہتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی کڑی کے طور پر بھی کام کرتا ہے جو دو روحوں کو جوڑتا ہے اور یگانگت کا احساس پیدا کرتا ہے۔اس سے خاندان کی بنیاد قائم رہتی ہے اور اس سے سماجی نظام برقرار رہتا ہے۔ شادی کے قوانین اور روایات مختلف جگہوں پر مختلف ہوتے ہیں۔ایک ثقافت سے دوسرے ثقافت میں مختلف ہوتے ہیں، لیکن تعلقات کو موثر اور ثقافتی طور پر قابل قبول بنانے کے لیے ہر تہذیب میں اس کے لئےکچھ بنیادی اصولوں کی پیروی لازمی ہوتی ہے۔
نکاح پر اسلام کی تاکید اس قدر حیران کن ہے کہ ٹیکنالوجی بھی ایسی عقلیت کا ادراک اور ادراک نہیں کر سکتی اور یہ مقدس ملاپ سب سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص بلوغت میں داخل ہوتا ہے۔اسلام کی اہمیت کو حقیقتاً نمایاں طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ بلوغت میں آتے ہی شادی پر اسلام زور دیتا ہے۔گویا دیر سے شادی کے خطرے سے بچنے اور تمام بُرائیوں سے زندگی کو صاف و پاک رکھنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔لیکن ہماری لالچ اور مادہ پرستانہ نقطہ نظر کی وجہ سے اس دیندار اور مقدس انتظامی معاملے میں اب ہمیںشدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جن سے شادیوں میں دیر کی خطرناک راہ ہموار ہو رہی ہے۔تاخیر سے شادی کو خواتین اور معاشرے کی عمومی بھلائی کے لیے تباہ کن قرار دیا جاتا ہے۔اس نے پوری دنیا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،اور اس طرح اب شادیوں میں تاخیر کے باعث لوگوں کوناجائز جسمانی تعلقات اورعصمت فروشی جیسے ناپاک معاملات میں ملوث کیا جارہاہےاور بدکاری کو مستقل بنیادوں پر فروغ دیا جارہا ہے، جس سے ہمارے معاشرے پر بھی بدترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شادی کی عمر میں اضافہ در اضافہ کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔لیکن ہماری کشمیری ثقافت میں تاخیر سے شادیوں کی ایک نہیں بلکہ تین اہم وجوہات ہیں۔جن کے نتیجے میں یہ سلسلہ طول پکڑتا جارہا ہے۔
مالی نقطہ نظر ، تعلیمی تکمیل، روزگاکا حصول ،جہیز کا بڑے پیمانے پر لین دین اور شادیوں کی تیاریوں میں اَنّا پرستی ،دکھاوا،ناک کی اونچائی کے لئےبدعات میںبڑھ چڑھ حصہ داری و دیگر کئی بےجا ایسےمعاملات ہیں،جن کے باعث ہمارے گھرانوں میںنوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی نکاح میںتاخیر کی وجہ بن چکی ہے۔گویاکہ پہلےہماری بالغ نوجوان نسل کو اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوگی۔پھر اچھا خاصا روزگار کا حصول ہوگا ،اس کے بعد شادی کرانےکے لیےکثیر پیسے، پھرالگ گھر بنانے اوراس میں تمام تر سہولتیں میسرہونی چاہئیں۔ظاہر ہےاس تگ و دَومیںہمارے نوجوان نسل کی زندگی کے عمر کا کافی حصہ گذر چکا ہوتا ہے اور پھر جب شادیاں کی جاتی ہیں ،توعیش و عشرت کا تمام سامان ونے کے باوجود یہ شادیاں زیادہ تر ناکام ثابت ہوجاتی ہیں۔تیسراپہلو ہمارے یہاں بے روزگاری کی تشویشناک شرح کا ہے ۔ جموں و کشمیر کی غیر مستحکم حیثیت کی وجہ سے یہاں ایسی فیکٹریاں نہیں ، جو نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کر سکتی ہیں،اس لئے تلاش روزگار میں ہی بیشتر نوجوان عمر کے اُس حد کو پار کرچکے ہوتے ہیں ، جو شادی کے لئے مفافق اور موذون ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شادی کے لیے جوڑوں کو نفسیاتی پختگی کی ڈگری حاصل کرنی چاہیے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں، ابھی تک جوان ہیں۔اس عمل میں وہ اپنی شادی کے لیے عمر کا تعین نہیں کر پاتے اور شادی کے سنہری وقت کو ضائع کر دیتے ہیں،اور یہ معاملہ بھی شادی میں التوا کی بڑی وجہ بن گئی ہے۔نوجوان نسل میں تاخیر سے شادی اب کوئی غیرمعمولی بات نہیں رہی۔خواتین کی زیادہ تعلیم اور معاشی دباؤ سمیت متعدد وجوہات کی بنا پر تاخیر سے شادیاں کر رہے ہیں۔اگرچہ دیر سے شادی ایک ذاتی پسند ہے، لیکن اس کے کچھ منفی نتائج ہوتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے لیے اپنے طرز زندگی اور عادات کو ہم آہنگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس نے والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ ناقص مواصلت اور ان کی نشوونما کے مراحل کو ملتوی کرنے کی بھی اجازت دی۔ دیر سے شادی معاشرے اور خاندان کے لیے نقصان دہ ہے۔دیر سے شادیوں کے رجحان نے نوجوانوں میں مایوسی اور عدم استحکام پیدا کردیا ہے۔کشمیر میں دیر سے شادی کے مسئلے کو حل کرنا مذہبی برادریوں کا بنیادی فرض ہے۔انہیں لوگوں کو دیر سے شادی کے نتائج اور مناسب عمر میں شادی کرنے کے فوائد کے بارے میں تعلیم دینی چاہیے۔
این جی اوز اور دیگر تنظیمیں زمینی پروگرام چلائیں اور پسماندہ افراد کو مالی امداد فراہم کریں۔انتظامیہ پسماندہ لڑکیوں کو معاشی مدد بھی دے سکتی تھی تاکہ لوگوں کو شادی کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ جہیز کے رواج سے نمٹنے کے لیے واضح رہنما اصول وضع کیے جائیں۔محبت کی شادیوں کے مسئلے اور اس کے تباہ کن اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے نیٹ ورکس کے ساتھ ساتھ سوشل نیٹ ورکس کا بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ ہر کشمیری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اُس عادت اور عمل کی مزاحمت کرے ،جس نے شادیوں کو غریب اور متوسط ​​طبقے کے لیے مہنگا اور مشکل بنا دیا ہے۔اگر دیر سے شادی کا رجحان جاری رہا تو وہ لمحہ آئے گا جب یہ کشمیر کی آبادی کے لیے خطرہ بن جائے گا۔نکاح جیسے بہترین عمل، جسے ہمارے نبی ﷺ نے نہایت آسان اور سادہ بنایا تھا، اسے ہمارے فیشن، مقابلے بازی اور انا نے انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہیز بھی نکاح میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔
موجودہ دور میں جب عریانی اور فحاشی ٹی وی کے ذریعے ہر گھر میں داخل ہو چکی ہے تو نوجون لڑکوں اور لڑکیوں کے بلوغت میں پہنچتے ہی ان کے جذبات اور خواہشات تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ اگر ان کی بر وقت شادی نہ کی جائے تو معاشرے میں بہت خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ نوجون لڑکے اور لڑکیاں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غیر انسانی، غیر اسلامی اور غیر فطری کاموں کے اندھے گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ؐ کے فرمان کے مطابق بچوں کے بلوغت میں پہنچتے ہی اچھے رشتے ڈھونڈ کر ان کی شادی کر دینا ہی بہتر حل ہے۔نکاح کی ان پیچیدگیوں سے معاشرے کو پاک کرنے کے لئے ہم سب کو مل کر اس نیک کام کو پیدا کردہ خرابیوں جیسے فضول خرچی، ڈانس پارٹیز، فنکشنز، میوزک کنسرٹس، جہیز اور غیر ضروری غیر اسلامی رسموں سے آزاد کروانا ہوگا۔ صرف اور صرف بروقت سادگی سے انجام دے کر اپنے بچوں کو بے راہ روی سے معاشرے کو برائی اور خرابی سے بچایا جا سکتا ہے۔اشد ضرورت ہے کہ شادیوں میں تاخیر سے گریز کیا جائے اور تہذیب کو اُن خوفناک مسائل سے دوچار ہونے سے بچایاجائے، جو تاخیر کی شادیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ معاشرے کی ہر بنیاد صاف ستھرے خیالات پر رکھی جائے اور ہر شخص کے خیال ایک مقدس مقصد ہونا چاہیے۔ شیطان اور شر سے نکلنے کا واحد راستہ نکاح ہے۔ اگر ہم مذہبی روایت کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مناسب وقت پر نکاح کرنا چاہیے۔ہمارا اخلاقی اور مذہبی فرض ہے کہ مناسب وقت پر اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کریں، ورنہ شادیوں میں تاخیر کے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
<[email protected]>

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں سرینگر شاہراہ پر ناچلانہ کے قریب سڑک حادثہ،دوافراد لقمہ اجل
تازہ ترین
مختلف شعبو ںاور غیر تدریسی جگہوں پر تعینات اساتذہ کو واپس اپنے سکولوں میں میں حاضر ہونے کیلئے کا حکم لوگوں کا خیر مقدم ، زمینی سطح پر عملی جامہ پہنانے سے محکمہ تعلیم میں بہتری آنے اور ساز باز ختم ہونے کا امکان
خطہ چناب
ایمرجنسی کوئی اچانک بگاڑ نہیں بلکہ کانگریس کی نظریاتی بنیاد کا مجموعی نتیجہ تھا ایمرجنسی کا دور ہندوستان کے جمہوری سفر کے تاریک ترین بابوں میں سے ایک:ڈاکٹر جتندر
جموں
وائٹ نائٹ کور جی او سی نے کا راجوری دورہ ؔؔ راجوری اور پونچھ میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا
جموں

Related

کالممضامین

’’چاند کو گواہ‘‘ رکھنے والاشاعر غلام نبی شاہد ایک جائزہ

June 27, 2025
کالممضامین

نور شاہ کی تصنیف ’’کیسا ہے یہ جنون ‘‘ تبصرہ

June 27, 2025
کالممضامین

علامہ اقبالؔ کی سائنسی فکر

June 27, 2025
کالممضامین

بسوہلی ۔ انصاف، ترقی اور وقار کی پُکار تلخ حقائق

June 27, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?