جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی سنگین صورت حال پر قابو پانے کے لئے کوئی موثر اور مثبت کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔موصولہ اعدادو شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں تعلیم یافتہ بے روز گارا فراد کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے،جن میں سے چار لاکھ سے زائد بے روز گار عمر کی اُ س حد کو پار کرگئے ہیں جو حصول ملازمت کے لئےمتعین کی گئی ہے۔چونکہ نہ تو ریاستی انتظامیہ اور نہ ہی مرکزی حکومت یہاں روز گار کے متبادل وسائل پیدا کرنے میں کو موثر دلچسپی دکھا رہی ہے ،جس کے نتیجے میں بے روز گار نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے، اُن کا مستقبل دن بہ دن تاریک ہورہا ہے جو کہ ہر لحاظ سے افسوس ناک صورت حال کا پیش ِ خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ وادی کے مختلف علاقوں میں زیادہ تر ایسے تعمیراتی کام کئے جارہے ہیں جو غیر پیداواری نوعیت کے ہوتےہیں۔پُل بنائے جارہے ہیں،شاپنگ کمپلیکس تعمیر کئے جارہے ہیں،فلائی اُوور بنائے جارہے ہیں ،سرکاری ملازمین کے لئے رہائشی تعمیرات وغیرہ بھی تعمیر کئے جارہے ہیں ،یہ سارے تعمیرات اگرچہ غیر اہمیت کے تصور نہیں کئے جاسکتے، تاہم یہ سارے کے سارے کام غیر پیداواری ہی ہیں۔شاپنگ لمپلیکس تعمیر کئے جائیں تو اُس سے سرکار کو ہی آمدنی ہوتی ہے اور پیسے والے لوگ ہی دکانیں حاصل کرسکتے ہیں ،اس سے نہ تو بے کار تعلیم یافتہ افراد کو روز گار مہیا ہوسکتا ہے نہ کوئی ایسا ادارہ قائم ہوسکتا ہے جس میں دو چار ہزار لوگوں کو روز گار فراہم ہوسکے،اور جس میں ایسا کوئی سامان تیار ہو ،جس کو برآمد کرنے سے کوئی آمدن حاصل کی جاسکے۔سابق حکومتوں کے ادوار میں بھی ہر کوئی حکومتی سربراہ ایک دوسرے کےخلاف یہی الزام عائد کیا کرتے تھے کہ یہ حکومت غیر پیداواری منصوبوں پر رقومات صرف کرتی رہیں۔جبکہ کوئی بھی حکمران اپنے دورِ اقتدار ایسا کوئی کار خانہ قائم نہ کرسکا ،کوئی فیکٹری نہیں کھولی یا کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کیا جو لوگوں کے لئے روز گار کا باعث بنتایا جس میں تیار ہونے والا سامان برآمد کرکے کوئی آمدن وغیرہ حاصل کی جاتی۔اسی طرح یہاں کی سابق مخلوط حکومتوں کے دوران بھی یہی طرز عمل جاری رہا ،حکومت حاصل کرنے کے موقعوں پر لوگوں کے ساتھ جس طرح کے وعدے کئے جاتے تھے،اُن پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔جس کے نتیجے میں عوام کو درپیش مسائل دور نہیں ہوتے اور بے روز گاری کا مسئلہ دن بہ دن بڑھتا اور پیچیدہ ہوتا چلا جارہا تھا جو محض شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے،مختلف پُل بنانے ،فلائی اوور یا گنڈولہ کی تعمیر یا خوبصور ت پارکیں یا تفریح گاہیں ،سیاحتی مقامات بنانے ،سجانے اور سنوارنے سے حل ہوا اور نہ ہوسکتا ۔ صورت حال آج بھی یہی ہے۔ لاکھوں افراد تعلیم حاصل کرنے کے بعد بے کار بیٹھے ہیں اور موجودہ حکومت ایسے لوگوں کے لئے روز گار کے وسائل پیدا نہیں کرسکی ہے۔حق تو یہ بھی ہے کہ وادی اقتصادی لحاظ سے پہلے کی طرح آج بھی پسماندہ ہے۔اس کی برآمدات برائے نام بھی نہیں۔آمدن کے ذرائع بھی محدود ہیں،یہاں کی قدیم صنعتیں تقریباً ختم ہوچکی ہیں ،قالین کی صنعت بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے ،پیپر ماشی ،ووڈ کارونگ بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں ۔شال بافی اور نمدہ سازی بھی بالکل محدود ہوکر رہ گئی ہے۔دوسری بہت سی قدیم صنعتیں برائے نام بھی باقی نہیں رہیں،صرف غیر پیداواری اسکیمیں عمل میں لائی جارہی ہیں۔جن پر بھاری رقومات صرف کی جارہی ہیں۔اور اس طرح کے کام کشمیریوں کو اقتصادی طور پر ترقی کرنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتے اور یہا سکیمیں یہاں کی اُس بے روزگاری پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں دے سکتیں، جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔بیشتر پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دس بارہ ہزا ر روپے کی ماہانہ اُجرت پر پرائیویٹ نوکریاں کررہے ہیںجبکہ بعض نوجوانوں نے بے روزگاری سے تنگ آکر غیر قانونی دھندے شروع کردیئے ہیں اور مجبوراً جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بننے کے لئے مجبور ہورہے ہیںجو کہ عام لوگوں کے لئے بے اطمینانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔موجودہ حکومت کو بے روزگاری سے متاثرہ افراد سے پیدا ہونے والے محرکات کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی اس حالت کو برقرار رکھنے میں زیادہ تاخیر کرنی چاہئے کیوکہ یہی وہ اہم اور سنگین مسئلہ ہے جس کے حل نہ ہونے سے مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔