بھارت میں حال ہی میںانائو کی ۱۶ سالہ ہند ولڑکی اور کھٹوعہ کی آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ ہوئی عصمت دری میں چونکہ سنگھ کے لوگ ملوث ہیں ، اس لئے ان واقعات نے بھگوا بریگیڈ کو پورے دیش کے سامنے عیاں کیا ۔کھٹوعہ میں ۱۰؍ جنوری میں ہوئی اغواء کاری، عصمت دری اور قتل کی واردت کو پہلے نہ ہی زعفرانی میڈیا نے دکھایا اور نہ ہی کسی منتری نے انصاف دینے کی بات کی لیکن جب بی جے پی کے دو کابینی وزراء لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا ہندو فرقہ پرست فورم ہندو ایکتا منچ کے ساتھ مل کر ملزموں کے حق میں احتجاج میں شامل ہوکر آٹھ سالہ بچی کو انصاف دلانے کو بجائے اس پر سیاست کی تو ان کی بازی اُلٹ گئی۔اس المیے سے بی جے پی کا اصل چہرہ اس وقت بے نقاب ہوا جب گنگا نے کہا کہ وہ منچ کے احتجاج میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ پارٹی صدر ست شرما کی ہدایت پر گیا تھا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی جموں میں اپنا ووٹ بنک بچانے کے لئے کس حد تک گر سکتی ہے۔ منچ کے جلوس ا ورجلسے میں بی جے پی وزراء کی موجودگی کا مطلب تھا کہ جن درندوں نے آصفہ کی عصمت دری کے بعد قتل کیا انہیں کھلا چھوڑدیاجائے ۔ بالفاظ دیگر وہ بغیر لاگ لپٹی کہنا چاہتے تھے کہ اگر ملزم ایسا کام کریں تو کرنے دو ،بٹیوں کی عزتیں لٹتی رہے تولٹنے دو، ہمیں صرف ووٹ کی پڑی ہے باقی سب کچھ جائے باڑ ھ میں۔ لال سنگھ وہی شخص ہے جس نے پچھلے سال جموں کے گجروں کو دھمکی دی کہ تم شاید ۱۹۴۷ء( جموں سا نحہ جس میں ۶لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا) بھول گئے ہو۔ نومبر ۴۷ء کی مانند کھٹوعہ کیس زعفرانی لوگوں کا کیا دھرا ہے جس کی ساری کہانی کرائم برانچ نے تحقیق وتفتیش کر کے اپنے چالان کی صورت میں پیش عدالت کی ۔ یہ سازباسٹھ سالہ سنجی رام ا ور اس کے ہتھیارے گروپ کا پہلے سے طے شدہ پلان تھا ،مقصد یہ تھا کہ جنسی زیادتی اور قتل کی واردات سے بکروال طبقے کے اندر خوف و ہراس پیدا ہو اور وہ رسانہ گائوں سے نقل مکانی کرنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔
یو پی انائو میں بی جے کی صف میں مانا ہوا غنڈہ گرد ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگرنے پچھلے سال ایک سولہ سالہ ہندو لڑکی کو جو اس پاس ملازمت کی درخواست لے کر گئی تھی ، کے ساتھ منہ کالا کیا۔ تب سے یہ مظلومہ یوگی سرکار کی مددگار پولیس سے فریادیں کر تی رہیں لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ مذکورہ بلات کاری ایم ایل اے کے بھائی بلدیو سنگھ نے لڑکی کے والد کو تھانے میں ٹھونس کرکے اتنا مارا پیٹا کہ مظلوم باپ کو پولیس تھانے سے اسپتال منتقل کیا گیاتو وہیںدم توڑ دیا۔اس کے بعد لڑکی نے یوگی کی سرکاری کوٹھی کے سامنے خود کشی کرنے کی کوشش کی تو حالات پلٹا کھا گئے اور بہت جلد میڈیا کی نیند کھل گئی ، کلدیب کا کیس سی بی آئی کے حوالے کیا گیا اور دوسرے دن ہی سینگر نے خود کو سلاخوں کے پیچھے پایا۔قبل ا زیں یوگی سرکار نے اعلان کیا تھا کہ بی جے پی کے سابق ایم پی سوامی چنمایانند پر سبھی ریپ مقدموں کو اب ختم کیا جائے گا ۔اس اقدام سے بی جے پی کے نعرے’’ بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘‘ کی کھوکلاہٹ عیاں ہوئی تھی۔یہ نعرہ اصل میں بلات کاری بی جے پی سے بیٹی بچائو اور بیٹی چھپاؤ کا روپ دھارن کر گیا۔ دوسری جانب دیکھئے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہمیشہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی ظاہر کرتے رہتے ہیں ۔ا نہوں نے لتا منگیشکر کو جنم دن پر مبارکبادی سب سے پہلے دینے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کی لیکن تریانوے دن بعد دل پر پتھر رکھ کے آصفہ کا نام لئے بغیر کھٹوعہ کیس میں انصاف کا وعدہ ٔ فرداد یا ۔ یہ وہی مودی ہیں جو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان کی وزارت اعظمیٰ کے دوران’’مون موہن‘‘ کا طعنہ دیتے تھے لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ آصفہ اور انائو کے المیوں کی عصمت دری کے سلسلے میں خود آپ نے سہ ماہی ’’ مون برتھ‘‘ کیوں رکھا؟ شاید ہی اُن کے پاس کوئی جواب ہوگا۔ بیٹی پڑھے بھی اور ان کی عزتیں بھی محفوظ رہیں ،اس کے لئے ایک ہی فارمولہ ہے : بی جے پی ہٹائو اور بیٹیوںکی عزت بچائو۔