تاریخ انسانی قوموں ، تہذیبوں ، ملکوں اور ملتوں کے عروج و زوال کی طویل اور پیچیدگیوں اور تضادات سے بھری کہانی ہے جس میں نسل انسانی کے لئے کئی عبرتیں اور کئی نصیحتیں موجود ہیں ۔اگرچہ ہرعروج و زوال کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں تاہم اکثر زوالوں اور عظمتوں کے پس پردہ ایک بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جن قوموں ، تہذیبوں ، ملکوں اورملتوں نے سماجی ، سیاسی، اقتصادی ، انتظامی اور دیگر شعبوں کی تعمیر و تجدید کیلئے ادارے بنائے اور انہیں مستحکم کرنے کی کوششیں کیں ان کا عروج تند و تیز آندھیوں کے روکے بھی نہ رُک سکا اور جہاں یہ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے وہاں زوال اور تباہی مقدر بن گئی۔
موجودہ زمانہ بھی اس کی زندہ مثال ہے ۔چودہ سو سال پہلے جس اُمت نے مختصر وقت میں عروج کے لامثال سنگ میل طے کئے وہ آج زوال کی انتہائی پستیوں کا سامنا کررہی ہے اور جو قومیںاُس وقت پست ترین سطح پر تھیں وہ آج عروج کی اونچائیوں پر کھڑی ہیں ۔آج دنیا کا سب سے عظیم ملک کہلانے والا امریکہ صرف چند سو سال پہلے کسی شمار و قطار میں نہیں تھا ۔ مسلمانوں کے بعد انگریزوں کو عروج حاصل ہوا اور اس عروج کی بنیادی وجہ وہی ہے جو مسلمانوں کے عروج کا باعث تھی ۔ چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام نے ایک غیر مہذب اور وحشی قوم کے درمیان جنم لیا ۔ اعلان نبوت کے صرف دس سال بعد یہی وحشی قوم اس قابل تھی کہ پورے عالم انسانی کی رہنمائی اور رہبری کرسکے ۔ یہ معجزہ قدرت کو کردکھانا تھا سو کردیا لیکن اس کی بنیاد ادارہ جاتی نظام کا وہ تصور تھا جو عالم انسانی کے سامنے پہلی بار متعارف ہوا اور جسے پیغمبر اسلام ﷺنے عملی شکل دی اور جس کے نتیجے میں ایک نئی انسانی تہذیب کی تعمیر ہوئی ۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں اس تہذیب کی تعمیر ہوئی انہی ہاتھوں نے اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کا عمل بھی بہت کم مدت میں شروع کردیا تاہم اس کے باوجود اس کے بل بوتے پر مسلمانوں کی عظمت کا پرچم صدیوں تک لہراتا رہا یہاں تک کہ اسی تصور کی بنیاد پر دوسری قوموں نے عروج اور عظمتوں کے زینے طے کئے ۔
عدلیہ کا نظام ، اقتصادیات کا نظام ،سماجی اور انسانی قدروں کا نظام ، سیاسی نظام ، حکومت کا نظام، اخلا قی نظام ، ہر شعبہ زندگی کیلئے قوانین کا نظام ، عام لوگوں کے حقوق کا نظام ، تجارت کا نظام ،تعلیمی نظام ، تدریسی نظام ،صحت و صفائی کا نظام ۔مکمل سرکاری اور انفرادی نظام انسانی تاریخ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس نے انسانی تہذیب کی شکل ہی بدل کررکھدی اور آج انسان ترقی کے جس عروج پر ہے یہ اسی ادارہ جاتی نظام کی دین ہے جسے مسلمانوں نے اُجاڑ دیا اور انگریزوں نے مستحکم کرکے ترقی کی بلندیوں کو چھولیا ۔صدیوں کی تحقیق کے بعد انگریزوں نے عدلیہ کا جو نظام بنایا وہی آج دنیا میں رائج ہے ۔ جمہوری نظام جو انہوں نے بنایا اسی کو دنیا نے اپنایا ۔اقتصادی نظام بھی انہی کا رائج کردہ ہے اور اخلاقی نظام بھی لیکن مسلمان آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جسے انگریزوں نے ایک مکمل شکل میں انسانی دنیا کے سامنے پیش کیا اس کا نہ صرف تصور ہی اسلام نے دیا بلکہ عملی شکل میں اسے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا ۔
لیکن بعد کے ادوار میں جب مسلمانوں نے اپنے تمام اداروں کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا تو ان کے کھنڈر اس امت کے پاس پھر بھی موجود رہے اور یہی کھنڈر مسلمانوں کی تنظیم اور تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں ۔مسلمان انگریزوں کے نظام زندگی ،نظام سیاست ، نظام اقتصادیات ، نظام تعلیم اور نظام حکومت کے تحت ہی زندگی گزار رہے ہیں لیکن خود پر یہ نظام نافذ کرنے کے بعد اپنے ہر نظام کی عظمت کے گن بھی گارہے ہیں ۔اسلام کے نظریہ حیات کو انسان کے تمام مشکلات کا حل بھی قرار دے رہے ہیں اورکسی نظام کی مکمل عملی شکل دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ایسی امت جس کے عمل اور سوچ میں اتنا بڑا تضاد ہو کیسے ان قوموں کے مقابلے میں کامیاب اور کامراں ہوسکتی ہے جن کے اندر اس طرح کا کوئی تضاد موجود نہیں ۔ دنیا کے کسی مسلم ملک میں آج اسلام کا نظام عدل موجود نہیں لیکن قاضی بھی ہر جگہ ہیں اور مفتی بھی اور ان کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں جو مفتی یا قاضی کے اختیارات اور ذمہ داریوں کا احاطہ کرتی ہو ۔نہ ان کے پاس عالمی سطح پرمسلمانوں کے تسلیم شدہ قوانین اور ضوابط کی کوئی کتاب ہے ۔وہ اپنی سوچ اور سمجھ سے جو کام کرتے ہیں اسے اسلام کے ضابطہ حیات سے منسوب کرتے ہیں۔
’’مذہب اور سیاست ایک ہے ‘‘اس جملے کی تشہیر اور تبلیغ اس طرح کی گئی ہے کہ یہ مسلمان کی نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اور ہر وہ شحص جو مذہب کااستعمال اپنی سیاست کے لئے کرتا ہے اور سیاست کا استعمال مذہب کیلئے کرتا ہے اسی کی آڑ میں کرتا ہے حالانکہ سیاست اسلام کے منضبًط ادارہ جاتی نظام کا حصہ ہے جو آج کہیں موجود نہیں اور اس کی غیر موجودگی میں مذہب اور سیاست کا کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہتا ہے بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ان پڑھ شخص قرآن حفظ کرتا ہے اور اس کی تلاوت کرکے مذہب کا رہنما بن جاتا ہے اور سیاسی رہنمائی کا فرض بھی ادا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے ۔ نہ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیمات کیا ہیں اور نہ ہی اسے سیاست کا مفہوم معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح وہ سیاست اور مذہب دونوں کوبگاڑ کر مسلمانوں کو گمراہیوں میں مبتلا کرتا ہے ۔
مفتی اسلامی نظام حیات کی ایک مرکزی شحصیت کا عہدہ ہے جوزمانے کے حالات اور مسائل میں امت کی رہنمائی کے لئے اصولوں اورہر شعبے کے قوانین کی وضاحت کیلئے فتوی جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ہر مسلمان چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔دنیا کا ہر مفتی مرکزی شخصیت یعنی مفتی اعظم کے ساتھ مربوط ہوتا ہے لیکن افسوس یہ کہ اب ہر گلی اورکوچے میں مفتی اعظم ہے اور اس مرکزی نظام کا تصور مفتیوںکے سیلاب میں غرق ہوچکا ہے۔
ہمارے کشمیر میں بھی ایک مفتی اعظم ہے اور ابھی تک خود اسے بھی معلوم نہیں کہ اصل میں اس کا اختیار کیا ہے ۔ اس کی ذمہ داری کیا ہے اور اس کے حدود کیا ہیں۔ یہ اس بات سے ظاہر ہے کہ اس نے ایک دارالفتویٰ قائم کیا ہے جو لوگوں کے نجی مسائل اور جھگڑوں کے فیصلے کرتا ہے حالانکہ یہ کام نظام عدل کا ہے جس کے لئے مفتی نہیں بلکہ قاضی ہوتا ہے ۔ قاضی اسلامی نظام میں چیف جسٹس کا عہدہ ہے۔مفتی قاضی نہیں ہوسکتا ہے اور قاضی مفتی نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ دونوںعلیحدہ علیحدہ شعبے ہیں ۔لیکن ہمارے مفتی صاحب نے تمام ذمہ داریوں کو اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے ۔ہمارے کسی بھی اسلامی سکالر کو اب تک یہ جرات نہیں ہوسکی ہے کہ وہ اِن سے پوچھے کہ انہیں کس نے مفتی اعظم بنایا ہے اور کیسے ؟۔ اور نہ ہی کسی نے ان سے پوچھا ہے کہ ان کے حدود کیا ہیں اور ان کے اختیار کا دائرہ کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ موجودہ مفتی اعظم کو اس منصب پر ان کے والد نے وراثت کے طور پر بٹھایا اور موجودہ مفتی اعظم نے بھی اپنے بیٹے کو قائم مقام مفتی اعظم قرار دیکر اس منصب کو وراثت کے طور انہیں بخشا ہے ۔
یہ اسلام کے اس بنیادی نظرئیے کے سراسر منافی ہے کہ کوئی منصب وراثت میں کسی کو بحشا جائے لیکن اسلام کے نام پر ہی اسلام کے بنیادی اصولوں اور ضوابط کو بڑی بے دردی کے ساتھ پامال کیا جارہا ہے ۔
قائمقام مفتی اعظم نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں ایک سیاسی بیان بھی دیا ۔ انہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے لئے ایک علیحدہ وطن کی مانگ کریں ۔یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب بھارت میں ایک ہندوانتہا پسند جماعت برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کی چھوٹی سی اقلیت اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہے ۔چونکہ قائم مقام مفتی اعظم کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں اس لئے اس بیان کو نظر انداز کردیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا بیان دیکر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی ہلاکت کے ساماں کرنے کی کوشش کیوں کی ۔ کیا انہیں اس بیان کے مضمرات کا اندازہ نہیں تھا اور اگر نہیں تھا تو انہیںایسا بیان دینے کی ضرورت کیا تھی ۔اس سے پہلے ان کے والد بھی کئی ایسے سیاسی بیان دے چکے ہیں جن کا سخت ردعمل دیکھ کر وہ ان سے مکر بھی گئے ۔لیکن مسلم سماج نے ان سے کبھی یہ نہیں چھا کہ وہ ایسے بیانا ت دینے کا اختیار بھی رکھتے ہیں یا نہیں ۔
سیاسی شعبہ ایک بالکل الگ اور مختلف شعبہ ہے سیاسی بیان دینے کیلئے سیاست کا ماہر ہونا ضروری ہے ۔ ہمارے ہاں سیاسی قیادت موجود ہے جو سیاسی بیانات دینے کا کم از کم عوامی منڈیٹ رکھتی ہے مفتی صاحب کو کسی نے بھی اس طرح کا اختیار نہیں دیا ہے کیونکہ وہ سیاست کے ماہر نہیں اورمذہب کے نام پر وہ ہر شعبے کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے ۔قائم مقام مفتی اعظم کو ریاست جموں و کشمیر کا حدود اربعہ بھی معلوم نہیں ہوگا ۔انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے پھر وہ ان کے معاملات میں دخل اندازی کیوں کررہے ہیں جب کہ کشمیر کے کسی بھی سیاسی لیڈر نے ان کے معاملات میںمداخلت کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی ہے ۔
مسلمان اس وقت پوری دنیا میں ایک نہایت ہی نازک صورتحال کا سامنا کررہے ہیں اوراس موقعے پر انہیں بہتر اور دور اندیش رہنماوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ کشمیر کی صورتحال بھی انتہائی نازک اور حساس ہے اور کشمیر میں بھی سیاسی رہنماوں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ایسے میں سیاست کے اسرار و رموز سے لاتعلق لوگ سیاست میں ٹانگ اڑا کر عوام کو گمراہیوں میں مبتلا کریں تو ہماری مشکلات اورمصائب میں اور زیادہ اضافہ ہوگا ۔ہم اپنے اصل مقصد سے دور ہٹ جائیں گے اور اس کے بعد ہمیں اپنی بھی خبر نہیں رہے گی اس لئے ہمارے صاحب علم لوگوں ، مذہبی اور سیاسی رہنماوں کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا سیاسی ، دینی اور سماجی رہنمائی کیلئے الگ الگ شعبے وضع کرنے ہوں گے تاکہ انتشار کی یہ صورتحال ختم ہو جو ہر کوئی ہر کسی شعبے میں مداخلت کرکے پیدا کررہا ہے ۔
ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر