بابر نفیس
اگر ہم تعلیمی معیار کی بات کریں توسکول کی عمارت اس معیار کا ایک حصہ ہے۔سکولی عمارت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے نظامِ تعلیم کا معیارکیسا ہوگا۔ اکثر بزرگ یہ کہتے ہیں کہ جس تعلیمی ادارے کی عمارت بہتر اور صاف ستھری ہو، وہاں تعلیم کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے۔گورنمنٹ سکولوں سے طلباء کی کنارہ کشی کرنے کا ایک اہم مسئلہ سکولی عمارات کی خستہ حالی ہوتی ہے۔اگرچہ گورنمنٹ سکول کے اساتذہ کی تنخواہیں بھلے ہی ایک لاکھ سے زائد کیوں نہ ہو، لیکن سکول عمارت کی خستہ حالی دور کرنے کے لئے دس ہزار روپے تک خرچ نہیں کئے جاتتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم نے کئی سماجی و سیاسی کارکنان سے بات کی تو اکثر لوگوں نے خستہ حال تعلیمی مراکز کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ پر مختلف طرح کے سوالات کھڑے کئے۔اس سلسلے میں جموں کشمیر کے پہاڑی علاقہ سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ ملوق کہتے ہیں کہ سکول کی عمارت ،تعلیمی میدان کا وہ حصہ ہے جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقہ جات کے سکولوں کی خستہ حالت کو دیکھ کر یہاں کی تعلیمی معیار کا اندازہ کوئی بھی انسان لگا سکتا ہے۔پورے ملک میں تعلیم کو بہتر کرنے کی بات کی جاتی ہے،لیکن ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں سکولوں کی حالت بدستورابتر بنی ہوئی ہے۔اگر ہم جموں و کشمیر کے ان علاقہ جات کی بات کریں ،جہاں کے سکولوں کی خستہ حالی انتظامیہ کو یہ احساس نہیں نہیں دلاتا کہ ان سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو آسمان سے بارش ہونے سے پہلے ہی کڑکڑاہٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ کڑکتی دھوپ میں بنا چھت کے بچے کس طرح کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ،اس کا اندازہ گورنمنٹ ہائی سکول ہڈل کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے،جوکہ بٹیا س ایجوکیشن زون کے تحت ہے۔
سیف اللہ ملوق کہتے ہیں کہ یہ وہ سکول ہے جس کی چھت انتہائی خستہ ہوچکی ہے، جب کبھی اچانک بارش ہوتی ہے تواس سکول میں زیر تعلیم بچوں کی کتابیں اور کاپیاں بھیگ جاتی ہیں۔انہیں اچانک بارش آنا ایک طوفان سا لگتا ہے۔عرصہ دراز سے چلی آرہی اس صورت حال کے متعلق انتظامیہ نے کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں کی ہے۔اگرچہ گورنمنٹ ہائی سکول ہڈل کی عمارت کا تعمیری کام عرصہ دو سال سے چلا آرہا ہے لیکن نہ معلوم کیوں وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوپارہا ہے؟ موصوف نے اس سلسلے میں انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ فوری طور اس عمارت کی طرف توجہ دے اور بچوں کے تعلیمی مستقبل ضائع کرنے سے گریز کریں۔ ایک اور مقامی فرد فاروق شکاری بتاتے ہیں کہ ہائی سکول ہڈل کے عمارت کی تعمیر میںمسلسل تاخیر کا راز ابھی تک نہ ہی انتظامیہ جان پائی اور نہ ہی لوگوں کی سمجھ میںآرہا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ یہاں کی 100 فیصد آبادی گجر طبقے سے وابستہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتظامیہ اور اس کے بڑے افسر خوداپنی آنکھوں سے عمارت کا حال دیکھیں اور اس عمارت کو لے کر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کریں۔ تاکہ عمارت کی تعمیر بہترہوجائے اور بچوں کا مستقبل ضائع نہ ہو۔انہوں نے ضلع ترقیاتی کمشنر سے اپیل کی کہ بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے وہ اس سکول کی عمارت کو بہتر کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پہاڑی علاقوں میں سردی، برف اوربارش کے دوران جس طرح سے سکول کے بچے اپنی تعلیم جاری رکھتے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔یہاں کے ٹیچر بھی لائق تحسین ہیں،جو ایسی عمارت میں کسی نہ کسی طرح بچوں کو تعلیم سے منور کر رہے ہیں۔
اس سکول کی دسویں جماعت کی طالبہ آمنہ بانو کہتی ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں جہاں کمپیوٹر کی دنیا میں لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں وہیں ہمارے سکول کی عمارت کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس کو ایک نجی عمارت میں منتقل کیا گیا ہے اور کوئی بھی افسر اس کی چھان بین یا کوئی کاروائی نہیں کر رہا ہے۔اس نے سوال کیا کہ اگرچہ لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر مرکزی سرکار کی جانب سے کئی طرح کے پروگرام سنائے جاتے ہیں لیکن ہمارے بارے میں کیوں نہیں سوچا جا رہا ہے؟ چنانچہ یہ سکول اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے ہی بنایا گیا تھا تو اس کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کیوں توجہ نہیں دی جاتی؟آمنہ نے امید ظاہر کی کہ آنے والے وقت میں اس سکول عمارت کی بہتری کے لئے ٹھوس اقدام اٹھائیں جائیں گے تاکہ یہاں کی لڑکیاں بھی بے فکر ہوکر پڑھائی کریں گی۔
اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن عالم دین کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہائی سکول ہڈل کی عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں کئی مرتبہ ضلع ترقیاتی کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی بھی جواب سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کمشنر سے ایک خط کے ذریعے جواب لینے کی کوشش کی کہ توانہوں نے کہا کہ کچھ ہی وقت میں عمارت کو مکمل طور پر تیار کیا جائے گا اور بچوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔اس یقین دہانی کے باوجود زمینی سطح پر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ بارشوں اور برف باری کے دوران ایک رہائشی مکان میں تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہے، اس کا کوئی اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔یہ عمارت کبھی بھی زلزلے کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک کچا مکان ہے۔
اس سلسلے میں ضلع کونسلر گندو محمد اقبال کوہلی کہتے ہیں کہ اس سکول کو لے کر میں نے کونسل میں کئی مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ضلع ترقیاتی کمشنر نے جو رد عمل ظاہر کیا اْس سے محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں اسکول کی عمارت کو بہترین طریقے پر تعمیر کیا جائے گا۔جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آج تک اس عمارت کو مکمل کیوں نہیں کیاجاسکا اور بچوں کو ایک نجی مکان میں پڑھایا جا رہا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ انتظامہ اپنی جانب سے اس کو جلداز جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جونہی سکول کی عمارت مکمل طور پر تیار ہوگی ،تو بچوں کوسکولی عمارت میں منتقل کیا جائے گا۔اس سلسلے میں ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ و شیش پال مہاجن کہتے ہیں کہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں بہت سارے سکولوں کی حالت خستہ حال ہے جن کوبہتر کرنے کی کوششیں جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ان سکولوں کی حالت کو بہتر کیا جائے گا۔ بہرحال اب یہ عمارت کب مکمل ہوتی ہے اور طالبات کب اپنے سکول کی عمارت میں منتقل ہونگی ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)