سرینگر// حکومت کی طرف سے ریاست میں بیوائوں،جسمانی طور معذور افراد اور بزرگ شہریوں کو مختلف ریاستی و مرکزی اسکیموں کے تحت 2009سے مالی معاونت دینے کی2لاکھ50ہزار سے زائد درخواستیں التوا میں پڑی ہیں۔اس مدت میں 2 حکومتیں اور3وزراء اعلیٰ کے علاوہ3بار گورنر راج کا نفاذ بھی عمل میں آیا تاہم ان کے مسائل کا ازالہ نہیں ہوا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر معذوروں اور بیوائوں کے علاوہ بزرگ شہریوں کی درخواستیں جہاں التواء میں ہیں، وہیں مالی اعتبار سے کمزور کنبوں کو بیٹیوں کی شادی کیلئے دی جانی والی25ہزار روپے کی مالی امداد کی ہزاروں درخواستیں بھی متعلقہ محکمہ میں دھول چاٹ رہی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں ’آئی ایس ایس ایس‘ (مربوط سماجی خدمت اسکیم) اورقومی سماجی معاونت پروگرام(این ایس اے پی)اسکیم کے تحت مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔اعدادو شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں مجموعی طور پر بزرگ شہریوں کو پنشن فراہم کرنے کے سلسلے میں’آئی ایس ایس ایس‘ کے تحت51ہزار558کیسوں کو التواء میںرکھا گیا ہے، جن میں سے وادی میں ان کیسوں کی تعداد 29 ہزار220 جبکہ جموں صوبے میں22ہزار 368 ہے۔ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے بھی اس تعداد میں درخواستوں کے التواء میں رہنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے چیئرمین جسٹس(ر) بلال نازکی کا کہنا ہے’’ تقریباً ایک دہائی گزر چکی ہے بیوہ خواتین،بزرگ شہریوں اور جسمانی طور پر معذذور افراد ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے مرتب شدہ اسکیموں سے استفادہ حاصل نہیں کر رہے ہیں‘‘۔ان کا مزید کہنا ہے کہ حتیٰ کہ بیوہ خواتین کو 20ہزار روپے کی وہ رقم بھی فراہم نہیں کی جاتی جس کیلئے وہ اپنے شہر کے آخری رسومات ادا کرنے کی اہل ہے۔ ادھر سرکار نے مفلس کنبوں کی لڑکیوں کیلئے شادی کے وقت25ہزار روپے کی مالی امداد کی رقم فرہم کرنے سے متعلق پالیسی بھی مرتب کی ہے،تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سماجی بہبود محکمہ میں ایسی ہزاروں درخواستیں فی الوقت التواء میں ہیں۔ذرائع کے مطابق ایسی مفلس لڑکیوں کی تعداد بھی کافی ہے،جنہوں نے مالی امداد کی حصولیابی کیلئے رجوع کیا تھا،اور انکی شادیاں بھی ہوئی،تاہم مالی امداد فراہم نہیں کی گئی۔جسٹس(ر) بلال نازکی کا کہنا ہے’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ مفلس کنبوں کی لڑکیاں شادی کیلئے25ہزار روپے کی سرکاری امداد کی اہل ہے،تاہم ایسی ہزاروں درخواستیں اس وقت بھی متعلقہ حکام کے پاس زیر التواء ہے۔انہوں نے مزید کہا’’میں یہ محسوس کر سکتا ہوں کہ25ہزار روپے کی رقم پر وہ تمام منحصرہیں‘‘۔ اس سلسلے میں حاجرہ بیگم کی طرف سے بشری حقوق کے انسانی کمیشن میں دائر عرضی پر شنوائی کے دوران کمیشن نے محسوس کیا کہ تحصیل سوشیل ویلفیئر آفسر نے اس سلسلے میں جو رپورٹ پیش کی وہ المناک تصویر پیش کر رہی ہے۔کمیشن نے کہا’’ چاڑورہ جیسے چھوٹے تحصیل میں9ہزار350 درخواستیں التواء میں ہیں،اور ایسا لگ رہا ہے کہ2009کے بعد کوئی بھی تازہ کیس منظور نہیں کیا گیا ہے۔جسٹس(ر) بلال نازکی نے ریاستی چیف سیکریٹری کو بھی ایک مکتوب روانہ کیا ،اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ مستحق افراد کے پنشن کیلئے درکار رقومات کو حاصل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں،تاہم انکی طرف سے کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آیا۔جسٹس(ر) بلال نازکی نے معاملے کی نسبت گورنر کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے تاکہ گورنر موصوف اس معاملے میں پیش رفت کریں۔