جموں//اگرچہ بین الاقوامی سرحد پر پچھلے کچھ ہفتوںسے امن ہے تاہم آر ایس پورہ سیکٹر میں سرحد سے 1کلو میٹر کی دوری پر واقع جوڑافارم گوجر بستی کے مکینوں کا دن رات پریشانی کے عالم میں گزرتاہے ۔اس بستی کے اجڑے گھروں کا منظر یہ بتاتاہے کہ یہاں سرحدی کشیدگی کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی رہی ہے۔ یہ بستی تکونی سرحد پر واقع ہے اور جب فائرنگ اور گولہ باری ہوتی ہے تو سامنے سے ہی نہیں بلکہ دائیں اور بائیں جانب سے بھی گولے اور بندوق کی گولیاں مکینوں اور ان کے مویشیوں کاپیچھاکرتی ہیں ۔کشیدگی کے وقت یہاں رہ رہے 210گوجر کنبوں کو بھاگنے تک کا راستہ تک نہیں ملتا اور وہ یاتو محکمہ دیہی ترقی کی طرف سے تعمیر کئے گئے چند زمین دوز بینکروں میں پناہ لیتے ہیں یاپھر چند ایک پکے مکانات میں جن کے اندر بندوق کی گولی جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں ۔جب فائرنگ اور گولہ باری کا عالم ہوتو اس بستی کے مکینوں کو اپنے مویشیوں کی فکر بھی بھول جاتی ہے اور وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے کچے کلے اوران میں رکھے گئے سامان کو بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔ ڈیڑھ ماہ قبل ہندوپاک افواج کے درمیان شدید فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہواجس کے نتیجہ میں گوجر بستی کے 24کلے خاکستر ہوگئے جبکہ 27کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اچانک سے ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کے جہاں پکے مکانات میں نشانات آج بھی موجود ہیں وہیں کچے کلو ںکی خاک اور اس سے نکلنے والی بو بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔منیر حسین کی عمر 60سال ہے جو 1981میں بلاور سے آکر اس گوجر بستی میں آباد ہوگئے ۔ ان کاکہناہے ’’جب فائرنگ ہوتی ہے تو ہر طرف کہرام ہوتاہے ، اچانک سے فائر شروع ہوجاتاہے ، چند ہفتے قبل صبح چھ بجے فائر شروع ہواجو دن کے ایک بجے ختم ہوا، تب ہمیں نکلنے کا موقعہ ملا ،یہ دیکھیں ہر مکان میں فائر کے نشانات ہیں اور جلے ہوئے کلوں کا دھواں اڑرہاہے ‘‘۔منیر حسین دیگر خاندانوں کے ہمراہ ایک ماہ تک حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے راحت کیمپوں میں رہے جس کے بعد وہ اگرچہ واپس اس اجڑی ہوئی بستی میں آگئے ہیں تاہم اب بھی انہیں یہ خوف ستارہاہے کہ نہ جانے کب پھر سے سرحد پر امن کا سکوت ٹوٹ جائے اور فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع ہوجائے ۔ ان کاکہناہے کہ یہاں جو بھی کام ہواہے وہ محکمہ دیہی ترقی کی طرف سے ہواہے ، پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مکانات بھی تعمیر ہورہے ہیں ، ایم جی نریگا کے تحت سڑکیں اور نالیاں بنائی جارہی ہیں جبکہ سوئوچھ بھارت مشن کے تحت بیت الخلائوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم اس سب کے باوجود انہیں جان کا خطرہ لاحق ہے ۔ان کاکہناہے کہ جس طرح سے اکھنور اور چھم جوڑیاںسے آنے والے لوگوں کو محفوظ مقامات پر اراضی دی گئی ہے ،اسی طرح سے ان کو بھی کسی محفوظ جگہ کم از کم چار چار کنال زمین فراہم کی جائے تاکہ وہ خود بھی رہ سکیں اور ساتھ ہی مویشیوں کی دیکھ بھال بھی کریں۔مقامی آبادی نے بتایاکہ حالیہ فائرنگ کے بعد محکمہ تعمیرات عامہ کے وزیر نعیم اختر نے اس علاقے کادورہ کرکے صورتحال کاجائزہ لیا اور مطالبات پورے کرنے کا یقین دلایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس بستی کے ہر گھر کا ذریعہ معا ش ان کے مویشی خاص طور پر بھینسیں ہیں جن کے دودھ کا فروخت کرکے وہ کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں ۔حالیہ فائرنگ وگولہ باری کے دوران 45سالہ جماعت علی کا کچا کلا بھی خاکستر ہوگیاجس کے اندر رکھا ہوا لگ بھگ ایک لاکھ روپے کا سامان بھی نہیں رہا ۔جماعت علی اب مکان تعمیر کررہاہے۔اس کاکہناہے کہ ماسوائے پی ایم اے وائی کے مکان ملنے کے علاوہ ابھی تک حکومت کی طرف سے انہیں کوئی امداد نہیں ملی ۔ ان کاکہناہے کہ یہ سننے میں آرہاہے کہ حکومت فی کلا 5200روپے دے گی جس سے تو اس دور میں ایک درخت بھی نہیں خریداجاسکتا ۔ اسی طرح سے 32سالہ لیاقت علی نے بتایاکہ اس بستی میں پی ایم اے وائی کے تحت63گھروں کو منظوری دی گئی ہے جس میںسے اس سال 41گھرتعمیر کئے جانے ہیں ،بے شک کچھ مکانات کی تعمیر کاکام جاری ہے لیکن حکومت ان کی مکمل بازآبادکاری عمل میں لائے تاکہ باربار اجڑنے او ربسنے کا سلسلہ ختم ہوسکے ۔ انہوںنے کہاکہ اس بار 211بھینسیں ہلاک ہوگئیں جن کا ابھی تک کچھ بھی نہیں ملا اور اب سننے میں آرہاہے کہ فی بھینس 30ہزار روپے دیئے جائیںگے جبکہ ایک بھینس لاکھوں روپے کی ہے ۔40سالہ ولی محمد کو بھی یہ شکایت ہے کہ حکومت کی طرف سے اکھنور اور چھم جوڑیاں کے مہاجرین کو محفوظ مقامات پر اراضی فراہم کی گئی تاہم انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیاگیا۔ ان کاکہناہے کہ ہر سال فائرنگ اور گولہ باری سے ان کو جانی و مالی نقصان سے دوچارہوناپڑتاہے ، پچھلے سال باپ بیٹا مرگئے اور اس سال سینکڑوں بھینسیں ہلاک ہوئیں جبکہ پچاس کے قریب کچے کلے بھی خاکستر ہوئے ۔ ولی محمد نے بستی میں موجود سرکاری مڈل سکول اور پرائمری ہیلتھ سنٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کی پڑھائی اور طبی سہولیات بھی کچھ حد تک فراہم ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ جان کا خطرہ ہے اور پتہ نہیں ہوتاکہ کب فائرنگ شرو ع ہوجائے گی ۔ اس بستی میں محکمہ دیہی ترقی کی طرف سے مرکزی معاونت والی سکیموں کے تحت انفرادی و مجموعی سطح کے ترقیاتی کام کئے جارہے ہیں۔رابطہ کرنے پر اسسٹنٹ کمشنر ڈیولپمنٹ جموںتاثیر بلوان نے بتایاکہ وہ جب پہلی بار اس علاقے میں گئے تو یہاں کا حال دیکھ کر حیران رہ گئے لیکن آہستہ آہستہ اس بستی میں ترقیاتی کام انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔انہوںنے کہاکہ نریگا اور دیگر سکیموں کی مدد سے سڑکیں ، نالیاں اور دیگر اثاثے تو بن رہے ہیں لیکن ان کیلئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ بے گھر لوگوں کیلئے پی ایم اے وائی کے تحت مکانا ت بن رہے ہیں جوان کے اپنے ہوںگے ۔انہوںنے بتایاکہ یہاں کام کرنا مشکل ضرور ہے لیکن محکمہ کے وزیر کی ہدایت پر پچھلے کچھ عرصہ میں اچھا خاصا کام ہواہے اور اس علاقے میں کام سے انہیں دلی سکون ملاہے۔