ڈوڈہ//بھدرواہ اور بھلیسہ میں آج کل جس موضوع پر سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے وہ بھدرواہ میں اے ڈی سی دفتر کا قیام اور سب ڈویژن بھلیسہ کو بھدرواہ کے ساتھ منسلک کرنے کا موضوع ہے۔سوشیل میڈیا پر بھی یہی موضوع چھایا رہتا ہے اور لوگ اس سلسلہ میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔البتہ بیشترسیاستدان اس بارے میں بات کرنے سے ہچکچا رہے ہیں اور اْنہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی ہے۔صرف چار سیاسی لیڈران ہیں جنہوں نے اس سلسلہ میں اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، جن میں ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی ،بھدرواہ سے تعلق رکھنے والے پی ڈی پی لیڈر شیخ محبوب اقبال، بھدرواہ سے ہی تعلق رکھنے والے نیشنل کانفرنس لیڈر ریاض احمد بھدرواہی اور بھلیسہ سے تعلق رکھنے والے نیشنل کانفرنس کے ہی ریاض احمد زرگر شامل ہیں۔خاموشی اختیار کرنے والے بڑے لیڈران میں سابق ریاستی وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد،سابق ریاستی وزیر محمد شریف نیاز اور موجودہ ایم ایل اے بھدرواہ دلیپ سنگھ پریہار شامل ہیں، کیوں کہ یہ تینوں حضرات نہ تو بھدرواہ کے ووٹران کو ناراض کر سکتے ہیں اور نہ ہی بھلیسہ کے رائے دہندگان کاغصہ مول لے سکتے ہیں۔اس بارے میں دوٹوک موقف رکھنے والے لیڈران میں سے سب سے پہلا نام ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی کا ہے جنہوں نے اگرچہ بھدرواہ میں ای ڈی سی دفتر کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے،مگرساتھ میں اْنہوں نے بھلیسہ کو بھدرواہ کے ساتھ منسلک کرنے کے فیصلہ کی پر زور الفاظ میں مذمت بھی کی ہے اور اسے ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ اور اہلیانِ بھلیسہ کے ساتھ ظلم سے قرار دیا ہے۔پی ڈی پی لیڈر محبوب اقبال شیخ اور ریاض بھدرواہی کا موقف بھی اس سلسلہ میں واضح ہے اور وہ یہ کہ بھلیسہ کے لوگوں کو پہاڑی ضلعے یا اے ڈی سی کے دفتر کے قیام کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور وہ چاہے مانیں یا نہ مانیں،مگر اْنہیں بھدرواہ کے ساتھ ہی رہنا ہو گا تاکہ بھدرواہ کے ہوٹل اور دیگر کاروباری ادارے آباد ہوں اور یہاں کی وہ رونق دوبارہ بحال ہو جو بھلیسہ کو تحصیل ،سب ڈویڑن اور کالج ملنے سے ماند پڑ چکی تھی۔ان دونوں لیڈران کو معلوم ہے کہ آزاد،محمد شریف نیاز اور دلیپ سنگھ پریہار جیسے لیڈران کے ہوتے اْنہیں بھلیسہ سے ووٹ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اْن کی کوشش ہے کہ وہ بھدرواہ والوں کو یہ باور کرائیں کہ وہ ہی بھدرواہ کے مسیحا ہیں اور بھلیسہ سے تعلق رکھنے والے تینوں لیڈران بھدرواہ دشمن ہیں۔ مگر اْن کی یہ خواہش بھی تھی کہ یہ تینوں لیڈران یا کم سے کم محمد شریف نیاز اور دلیپ سنگھ پریہار اس فیصلے کی مذمت کریں تاکہ اْن کو بھدرواہ دشمن ثابت کیا جا سکے اور انتخابات میں اس کا بھر پور فائدہ حاصل کیا جا سکے، مگر وہ دونوں بھی سیاست کے دائو پیچ جانتے ہیں اور اْنہوں نے اس معاملے پر کوئی بات نہ کرنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے۔ ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی کے بھدرواہ اسمبلی حلقہ سے انتخاب لڑنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں لہٰذا اْنہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ بھدرواہ کے رائے دہندگان اْن سے خوش ہوں گے یا ناراض،لہٰذا اْنہوں نے حقیقت پسندی کو ہی ترجیح دے کر اس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور یہ بات کھول کر بتا دی ہے کہ بھلیسہ کے غریب لوگوں پر اس کے کیا اثرات پڑنے والے ہیں اور کون کون سے مسائل اور مشکلات اْن کے لئے پیدا ہوں گی۔اْن کی اس بے باکی پر بھدرواہ کے سیاسی لیڈران اگرچہ اْنہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، مگر بھلیسہ کے لوگ اْن کی حقیقت پسندی کے اور زیادہ گرویدہ ہو گئے ہیں اور اْن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔بھلیسہ سے تعلق رکھنے والے نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر ریاض احمد زرگر کا یہ اصول رہا ہے کہ جب مسئلہ علاقہ بھلیس کا ہو تو وہ پارٹی مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف بھلیسہ کے وکیل بن جاتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ یہ بھلیسہ والوں کو اپنے حقوق سے محروم رکھنے اور اْن کا استحصال کرنے کی ایک منصوبہ بند ساز ش ہے جس کو وہ کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اْن کا کہنا ہے کہ محبوب اقبال شیخ کے اشاروں پر فیصلہ لینے والی ریاستی حکومت سے یہ اْمید رکھنا فضول ہے کہ وہ بھلیسہ کے لوگوں کی مشکلات کا ادراک کر کے اس فیصلے کو منسوخ کرے، لہٰذا اْنہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔اگر وہ بھلیسہ کو بھدرواہ سے منسلک کرنے کے فیصلے کو منسوخ کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقینا بھلیسہ میں اْن کا سیاسی قد بہت بڑھ جائے گا۔عوامی سطح پر دیکھا جائے تو بھلیسہ کے لوگ بھدرواہ کے ساتھ اس لئے نہیں رہنا چاہتے کہ بھدرواہ بھلیسہ سے ڈوڈہ کی نسبت بہت زیادہ دور ہے اور یہ کہ اْنہیں ڈوڈہ سے بھدرواہ اور بھدرواہ سے ڈوڈہ کے چکر کاٹنا پڑیں گے اور اْن کا جو کام ایک دن میں ہو جاتا تھا اْس کے لئیاْنہیں کم سے کم دو دن درکار ہوں گے۔اْن کا کہنا ہے کہ اگرآج اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کر کے اسے منسوخ نہ کرایا گیا تو پھر آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اْدھر بھدرواہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اْنہیں بھلیسہ کے لوگوں کے ساتھ بہت محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اْن کا بھدرواہ آنا جانا دوبارہ بحال ہو جائے اور تحفے تحائف کا سلسلہ بھی دوبارہ شرو ع ہوکیوں کہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔