میم دانش
نوآبادیاتی دور کے بجائے بھارت کے فوجداری نظامِ انصاف میں تین نئے قوانین کی منظوری سے ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہ قوانین۲۰۲۳ءمیں منظور ہوئے اور یکم جولائی ۲۰۲۴ء سے نافذ العمل میں آئے۔ ان کا مقصد قانونی ڈھانچے کو جدید بنانا، شہریوں پر مرکوز اصلاحات لانا اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ان قوانین میں بھارتیہ نیائے سنہیتا ( BNS)جس نے سابقہ ’’ہندوستانی تعزیرات قانون (IPC)، ۱۸۶۰ ءکی جگہ لی۔ بھارتیہ ناغرک سرکشا سنہیتا ( BNSS)نے سابقہ ’’فوجداری ضابطہ(CrPC)۱۹۸۳کی جگہ لی جبکہ بھارتیہ ساکشیا ادھینییم ( BSA) نے سابقہ ’’بھارتیہ شہادت قانون۱۸۷۲ءکی جگہ لی ہے۔یہاں ہم ان تینوں قوانین کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ سابقہ قوانین سے کس طرح سے مختلف ہیں۔
بھارتیہ نیائے سنہیتا (۲۰۲۳ءBMS)اس قانون میں بغاوت کی دفعہ (124A) کو ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک نئی دفعہ لائی گئی ہے جو زیادہ واضح تعریفوں اور حفاظتی اقدامات کے ساتھ بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کو مجرمانہ قرار دیتی ہے۔اس میں دہشت گردی اور منظم جرائم کی مخصوص تعریف اور سزائیں شامل کی گئی ہیں جو IPC میں موجود نہیں تھیں۔ہجوم کے ہاتھوں قتل(Mob Lynching) کو باقاعدہ جرم قرار دیا گیا ہے اور اگر اس سے موت واقع ہوتی ہے تو اس کی سزائیں بھی اس قانون میںمقرر کی گئی ہیں۔ معمولی جرائم کے لئے سماجی خدمت کو سزا کے طور پر شامل کیا گیا ہے جو اصلاحی انصاف کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ جنسی جرائم سمیت مختلف دفعات میں صنفی غیرجانبدار زبان استعمال کی گئی ہے تاکہ شمولیت اور برابری کو یقینی بنایا جا سکے۔عصمت دری کے سلسلے میں IPC کی تعریف کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی ہیں۔ شادی شدہ تعلقات میں عصمت دری(سوائے علیحدگی کی حالت میں) کو اب بھی جرم قرار نہیں دیا گیا جو ایک جاری بحث کا موضوع ہے۔
بھارتیہ ناغرک سرکشا سنہیتا (BNSS) ۲۰۲۳ءاس قانون میں تفتیش ۹۰؍ دن کے اندر مکمل ہونی چاہیے اور مخصوص مقدمات میں سماعت ۲ سال کے اندر مکمل ہونی چاہیے جبکہ گواہوں کے بیانات۳۰؍ دن میں ریکارڈ کئے جائیں گے۔اب بعض جرائم کے لئے آن لائن FIR درج کی جا سکے گی۔ عدالتی کارروائیاں، شواہد جمع کرانا اور سمن بھی ڈیجیٹل ہو ں گی۔ کسی بھی تھانے میں FIR درج کرانے کا حق (Zero FIR) تسلیم کر لیا گیا ہے۔ متاثرہ کو مقدمے کی پیش رفت سے متعلق باقاعدہ معلومات دینے کا حق بھی شامل کیا گیا ہے۔ سنگین جرائم میں عدالتی اجازت کے بعد ہتھکڑی لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔گھنائونے جرائم میں فارینسک تجزیہ لازمی قرار دیا گیا ہے اور اس کی سزا 7 سال یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔مفرور ملزمان کی جائیداد ضبطی اور سزا دینے کے طریقہ کار کو زیادہ مؤثر بنایا گیا ہے۔
بھارتیہ ساکشیا ادھینییم۲۰۲۳ ء (BSA)اس قانون میں الیکٹرانک ریکارڈز جیسے سوشل میڈیا پوسٹس، اِی میلز، پیغامات، میٹا ڈیٹا اور کلاؤڈ اسٹوریج میں موجود دستاویزات کو ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے گا۔صرف مخصوص حالات میں الیکٹرانک ریکارڈز کو درست تسلیم کیا جائے گا، جس سے طریقہ کار میں آسانی پیدا ہو ۔جنسی زیادتی اور دہشت گردی جیسے حساس مقدمات میں گواہوں کو اضافی قانونی تحفظ فراہم ہوگا۔ ڈیجیٹل شواہد کے لئے ایک غیر منقطع حفاظتی زنجیر (Chain of Custody) کا تصور متعارف کرایا گیا ہے تاکہ ان کی صداقت برقرار رہے۔ ڈیجیٹل دستاویزات کے حلف نامے اور تصدیقی عمل کو آسان بنایا گیا ہے۔
پرانے فوجداری قوانین مختلف وجوہات کی بنا پر تبدیل کئے گئے جن میں سب سے اہم مقصد فوجداری انصاف کے نظام کو جدید اور بہتر بنانا تھا۔ہندوستانی تعزیرات کا قانون (IPC) فوجداری مقدمات کے ضابطے کا قانون (CrPC) اوربھارتیہ شہادت قانون سبھی برطانوی نوآبادیاتی دور (زیادہ تر انیسویں صدی میں) میں بنائے گئے تھے۔ان قوانین کی بہت سی دفعات نوآبادیاتی ترجیحات پر مرکوز تھیںجیسے کہ فرد کے حقوق کے بجائے ریاست کی حفاظت ۔ایسے قوانین جدید اور جمہوری بھارت کے لئے پرانے اور غیر مؤثر ہو چکے تھے۔ جیسے جیسے سائبر جرائم، منظم جرائم، دہشت گردی اور صنفی بنیاد پر تشدد نے نئی شکلیں اختیار کر لی ،پرانے قوانین ان جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کافی نہیں تھے۔صرف سزا پر مبنی نظام کے بجائے ایسے قوانین کی ضرورت تھی جو متاثرین اور انصاف کو مرکزیت دیں۔نئے قوانین کا مقصد تیز تر انصاف، افراد کے حقوق کا بہتر تحفظ اور تحقیق و عدالتی کارروائی کے طریقۂ کار کو بہتر بنانا ہے۔پرانے نظام میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر، عدالتوں پر زیادہ بوجھ اور طریقہ کار میں خامیاں جیسے مسائل تھے۔نئے قوانین سے ان طریقوں کو آسان اور مؤثر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈیجیٹل شواہد، مصنوعی ذہانت سے نگرانی اور سائبر فارینسک،یہ سب پرانے قوانین میں شامل نہیں تھے۔جدید قوانین ان عناصر کو قانون کے مؤثر نفاذ کے لئے شامل کرتے ہیں۔غرض یہ کہ ان نئے قوانین کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ ایسے قوانین تیار کئے جائیں جو جمہوری اقدار، آئینی اخلاقیات اور بھارت کے مقامی حالات کی عکاسی کریں، نہ کہ صرف ماضی سے ورثے میں ملے ڈھانچوں پر مبنی ہوں۔
یہ تینوں نئے قوانین مجموعی طور پر بھارت کے فوجداری نظام میں ایک انقلابی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں۔یعنی نوآبادیاتی اور سزا پر مبنی نظام سے ایک ڈیجیٹل، وقت کی پابند اور شہری مرکزِ نظام کی جانب بھر پورمنتقلی۔ ان تبدیلیوں کا مقصد شفافیت کو بڑھانا، مقدمات کے تاخیر کو کم کرنا اور متاثرہ و ملزم دونوں کے حقوق کا بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔البتہ ان اصلاحات کی کامیابی کا انحصار ان کے مؤثر نفاذ پر ہے۔ اصلاحات، صلاحیت اور ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے جیسے چیلنجز کو حل کرنا لازمی ہے تاکہ ان قوانین کی مکمل انقلابی صلاحیت بروئے کار لائی جا سکے۔
[email protected]