ڈاکٹر جتیندر سنگھ
ہمارے جیسے وسیع اور متنوع ملک کے لیے ایک ترقی یافتہ ملک، یعنی ’2047 تک وِکست بھارت‘ بننے کے سفر میں ہمیں ہر اُس وسیلے اور ہر اُس موقع پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک استعمال نہیں ہوا یا کم استعمال ہوا ہے۔ خاص طور پر اُس وقت جب ہمارا پُرعزم ہدف معیشت کی درجہ بندی میں نمبر 4 سے نمبر 1 تک پہنچنا ہے۔
دہائیوں تک ہماری توجہ زیادہ تر زمینی وسائل کی صلاحیت کو بروئے کار لانے پر رہی۔ ہم نے شاہراہیں تعمیر کیں، ریلوے نیٹ ورک کو وسعت دی، صنعتیں قائم کیں اور کھیتوں کو زرخیز بنایا۔ لیکن آج جب ہم اپنی تاریخ کے اس فیصلہ کن دور، ’امرت کال‘ میں کھڑے ہیں، تو یہ مانتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا غیر استعمال شدہ سرمایہ صرف زمین پر نہیں بلکہ اُس وسیع نیلے سمندر میں ہے جو ہمارے ملک کو گھیرے ہوئے ہے۔
سمندری معیشت صرف ایک اور شعبہ نہیں، یہ ہماری ترقی کے لیے نئی خصوصی سرحد ہے، خوشحالی، پائیداری اور قومی طاقت کی ایک راہ ہے۔ یہ ’وِکست بھارت‘ کے وژن میں ایک مرکزی ستون کے طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ایک وسیع اور طاقتور تصور ہے جو مچھلیوں کے شکار، بندرگاہوں اور جہازرانی جیسی روایتی سرگرمیوں سے لے کر سمندری بایوٹیکنالوجی، ایکو ٹورزم، سمندری قابلِ تجدید توانائی اور گہرے سمندری تحقیق جیسے جدید شعبوں تک سب کو شامل کرتا ہے۔
نیل گوں معیشت کی تعریف یوں کی گئی ہے’’یہ سمندری وسائل اور انسان کے ذریعے بنائے گئے معاشی ڈھانچے پر مشتمل پورا نظام ہے جو بھارت کے قانونی دائرۂ اختیار میں سمندری، بحری اور ساحلی زونز پر محیط ہے، اور جو اشیاء و خدمات کی پیداوار میں مدد دیتا ہے، تاکہ معاشی ترقی، ماحولیاتی پائیداری اور قومی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے‘‘۔
اب بھارت کے نظرثانی شدہ ساحلی علاقے کی لمبائی 11,098 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور خصوصی معاشی زون 24لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس وجہ سے بھارت اس سمندر پر مبنی ترقی کے انجن کا عالمی رہنما بننے کی شاندار حالت میں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی بصیرت افروز قیادت میں سمندری معیشت نئی بھارت کے ترقیاتی وژن کا ایک کلیدی ستون بن چکی ہے۔ ہمارا ہدف سمندری وسائل کے پائیدار استعمال کے ذریعے 100ارب امریکی ڈالر کی معیشت قائم کرنا ہے۔ یہ نہ صرف روزگار پیدا کرنے کا وعدہ کرتی ہے بلکہ ساحلی کمیونٹیز کو سہارا دینے، سمندری ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور عالمی بحری موجودگی کو مستحکم کرنے کی بھی ضامن ہے۔ اب ہم سمندری معیشت 2.0 کے دور میں ہیں، جو زیادہ جدید اور مستقبل پر مبنی ہے۔ یہ دور صرف روایتی شعبوں پر نہیں بلکہ نئے ابھرتے ہوئے شعبوں پر مرکوز ہے جو ہمارا مستقبل طے کریں گے۔
ہمارے اقدامات پہلے ہی جاری ہیں۔ گہرا سمندر مشن کے ذریعے ہمارے سائنسدان جدید ٹیکنالوجی جیسے ’مَتسیہ 6000‘ آبدوز کا استعمال کرتے ہوئے گہرے سمندر کی کھوج کر رہے ہیں تاکہ تزویراتی وسائل دریافت کریں اور مستقبل کی ٹیکنالوجیز تیار کریں۔ ساگر مالا پروگرام بندرگاہوں اور بنیادی ڈھانچے کو جدید بنا رہا ہے تاکہ تجارت تیز اور مؤثر ہو، اور کاروبار زیادہ مسابقتی ہوں۔ ساحلی کمیونٹیز کی فلاح کے لیے پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) ایک نمایاں اسکیم ہے جو ماہی گیری کے شعبے میں نیل گوں انقلاب‘ لے کر آ رہی ہے۔
لیکن ہمارا وژن اس سے کہیں آگے ہے۔ یہ ایک ایسا وژن ہے جو عوام کو بااختیار بناتا اور کرۂ ارض کا تحفظ کرتا ہے۔ خواتین کو سمندری کائی کی کاشت اور ماحول دوست سیاحت جیسے پائیدار شعبوں میں قیادت کی ترغیب دے کر اُن کے لیے نئی آمدنی کے ذرائع اور کمیونٹی میں زیادہ آواز پیدا کی جا رہی ہے۔ نوجوانوں میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے تاکہ انہیں وہ ہنر اور تربیت فراہم کی جا سکے جو سمندری معیشت میں پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں جیسے بحری انجینئرنگ اور ڈیٹا اینالیٹکس کے لیے درکار ہیں۔ ہم ایک نئی نسل کے اختراع کاروں اور کاروباریوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
وزارت اس جدت کو سہارا دینے کے لیے نجی سرمایہ کاری اور اختراعی اسٹارٹ اپس کے لیے ایک محرک کے طور پر کام کر رہی ہے جو نیل گوں معیشت کے مرکز میں ہیں۔ ایک کاروبار دوست ماحول قائم کیا جا رہا ہے جہاں نوجوان اور متحرک کمپنیاں اسمارٹ فشنگ، سبز ساحلی نقل و حمل اور بحری بایوٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں حل تیار کر سکیں۔ ٹیکنالوجی اور اسٹارٹ اپس پر ہماری توجہ ایک خود انحصار بھارت کی تعمیر کا لازمی حصہ ہے، ایسا ملک جو صرف استعمال نہیں بلکہ تخلیق بھی کرتا ہے۔
پائیداری اور موسمیاتی عمل ہماری سمندری معیشت کے مرکز میں ہیں۔ ہم صاف اور سبز سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جیسے پائیدار ماہی پروری اور مینگرووز اور مرجان چٹانوں کی بحالی، جو موسمیاتی تبدیلی اور سمندر کی سطح بلند ہونے کے خلاف قدرتی ڈھال کا کام کرتے ہیں۔ لکشدیپ میں بھارت کا پہلا اوپری سمندری حرارتی توانائی پلانٹ یہ دکھا رہا ہے کہ کس طرح جدت صاف بجلی اور پینے کا پانی دونوں فراہم کر سکتی ہے۔ ہماری سبز ساگر گائیڈلائنز اس عزم کا واضح اظہار ہیں کہ ہم اپنی بندرگاہوں کو سبز بنائیں گے، کاربن کے اخراج کو صفر پر لائیں گے اور صاف ایندھن استعمال کریں گے۔
بھارت عالمی سمندری حکمرانی میں بھی قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ جی-20 صدارت کے دوران ہم نے پائیدار سمندری معیشت کیلئے چنئی اعلٰی سطح کے ضابطے جاری کیے، جو ذمہ دار سمندری ترقی کے لیے ایک عالمی فریم ورک ہے۔ ہم دیگر ترقی یافتہ ممالک اور کثیر فریقی اداروں کے ساتھ شراکت داری مضبوط کر رہے ہیں تاکہ سمندروں اور انسانوں کے مفاد میں سائنسی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں۔ ہم نے تاریخی بایو ڈائیورسٹی بیونڈ نیشنل جُرِسڈکشن یعنی قومی قانونی چارہ جوئی کے پرے حیاتیاتی تنوع (بی بی این جے) معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں، جو عالمی سطح پر سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے ہمارے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے اقوامِ متحدہ اوشن کانفرنس (یو این او سی 3) میں نیس، فرانس میں شرکت کی، جہاں ہم نے ساہَو پورٹل کا آغاز کیا، جو ایک انقلابی ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے تاکہ سمندری خصوصی منصوبہ بندی جیسے سمندری معیشت اقدامات میں تعاون، علم کے تبادلے اور شفافیت کو بڑھایا جا سکے۔
’وِکست بھارت ‘کا سفر ایک مشترکہ سفر ہے۔ سمندری معیشت ہمارے سمندروں کی پوری طاقت کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کا قومی عہد ہے۔ اپنے لوگوں کو بااختیار بنا کر، فطرت کا تحفظ کر کے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر کے ہم ایک ایسا بحری مستقبل تعمیر کر رہے ہیں جس سے تمام بھارتیوں کو فائدہ ہو گا۔
جب ہم 2047کی طرف دیکھتے ہیں تو نیل گوں معیشت نئی بھارت کی محرک قوت ہو گی — ایسا بھارت جو خوشحال، جامع اور ماحولیاتی طور پر محفوظ ہو۔ وقت ہمارے ساتھ ہے، اور ہم ایک روشن مستقبل کی جانب اس لہر پر سوار ہونے کے لیے تیار ہیں۔
مضمون نگار سائنس و ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) نیز ارضیاتی سائنس ، وزیراعظم کے دفتر ، جوہری توانائی، خلاء ، عملہ ، عوامی شکایات اور پنشن کے وزیر مملکت ہیں۔
(بشکریہ پی آئی بی)