کہا جاتا ہے کہ مرتے وقت آدمی جھوٹ یا غلط نہیں بولتا۔عدالت بھی ڈائنگ ڈکلیریشن کو قبول کرتی ہے لیکن یہی بات کیاکسی سیاسی لیڈر یا پارٹی کیلئے کہی جا سکتی ہے،اس میں ذرا تامل ہے۔بی جے پی یا توخود کو مرتاہوا نہیں دیکھ پا رہی ہے یا دیکھ کر اَن دیکھی کر رہی ہے، ورنہ اس بے نیازی کے ساتھ غلط پر غلط کام نہیں کئے جاتی۔ایک غلط کام کا اثر زائل ہی نہیں ہو پاتا کہ دوسرا غلط کام انجام دے جاتی ہے ۔کبھی کبھی یہ تھوک کے بھاؤسے غلطیاں کر رہی ہے ۔اس طرز عمل سے اس کی اصل ذہنیت کا پتہ چلتا ہے،یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ اس میں مستقل مزاجی اور یکسوئی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس سے ملک کو نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔الیکشن جیتنے، حزبِ اختلاف میں رہ کر مسائل پر صرف شور شرابہ کر نے ، حزبِ اقتدار کی ناک میں دم کرنے میں اسے ید طولیٰ ہے لیکن اقتدارمیں رہ کرڈھنگ سے حکومت کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔اسی لئے کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’بی جے پی ابھی تک اپنے حزبِ اختلاف کے موڈ(mode) سے نکل ہی نہیں سکی ہے اور کانگریس حزبِ اقتدار کے موڈ سے‘‘۔ان دو باتوں میں ایک حسین تضاد ہے۔بی جے پی پارلیمنٹ میں خود مکمل اکثریت (الیکشن جیتنے کے وقت ۲۸۲؍سیٹ) والی پارٹی ہے اور اس کے علاوہ این ڈی اے کی اکائیوں کو بھی ان میں شامل کر دیا جائے تواس کی سیٹیں ۳۵۰؍کے اوپر ہیں جب کہ کانگریس کی اتنی بھی سیٹیں نہیں ہیں کہ اسے باضابطہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مل سکے ۔اس کے باوجود کانگریس بھاجپا پربھاری پڑتی ہے۔وجہ صاف ہے کہ کانگریس کے پاس تجربے کے ساتھ دور اندیشی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کوئی دودھ کی دُھلی پارٹی ہے لیکن اس کے دورِ اقتدار میں ایسا نہیں ہوا کہ اس نے اعلیٰ سرکاری خود مختاراداروں کو اپنا جی حضوری بنایا ہو، سوائے چندایک مثالوں کو چھوڑ کر اور وہ بھی اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں۔
بی جے پی کے دورمیں تقریباً تمام خود مختار ادارے ہاتھ باندھے اور سر جھکائے کھڑے نظر آرہے ہیں،خواہ انکم ٹیکس کا محکمہ ہو،اِی ڈی ہو،سی وی سی ہو،سی اے جی ہو،الیکشن کمیشن ہو کہ سی بی آئی۔اب تو سی بی آئی کے کھیل میں عدلیہ اپنی وضع پر نہیں دِکھتا ۔گزشتہ برس جنوری ہی میں چار ججوں کی کھلی پریس کانفرنس کے بعد کچھ آس بندھی تھی ۔سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹرآلوک ورماوالے مقدمے میں اگرچہ چیف جسٹس نے انہیں بحال کر دیا تھا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس پوسٹ کی تقرری کرنے والی اعلیٰ کمیٹی اگر مناسب سمجھے تو ! یہ کمیٹی چیف جسٹس،وزیر اعظم اور حزبِ اختلاف کے لیڈر پر مشتمل ہونے تھے اور ایک ہفتے کا وقت دیا گیا تھا لیکن وزیر اعظم مودی نے ۲۴؍گھنٹے کے اندر کمیٹی کی میٹنگ بلا لی اور ایک دن پہلے بطور ڈائریکٹر کام سنبھالنے والے ورما کا تبادلہ دوسرے شعبے میں کر دیا یعنی ایک طرح سے سی بی آئی چیف کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔مذکورہ کمیٹی میں چیف جسٹس یہ کہتے ہوئے شامل نہیں ہوئے کہ چونکہ انہوں نے ہی ورما کی بحالی کا فیصلہ صادر کیا ہے، اس لئے ان کا کمیٹی کے معاملات میں دخل دینا مناسب نہیں ہے اور اپنے نمبر دو یعنی جسٹس سیکری کو میٹنگ میں بھیجا۔جسٹس سیکری نے سی وی سی کے رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے ورما کے خلاف فیصلہ دیا ۔وزیر اعظم مودی تو ورما سے پہلے ہی مکتی چاہتے تھے ،اس لئے اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے اکیلے پڑ گئے اور ورما سی بی آئی سے نکالے گئے۔اگرچہ ایک دنیا کو معلوم ہے کہ دو ماہ قبل آدھی رات کو وزیر اعظم نے خود ورما کو ہٹانے کا فرمان جاری کیا تھا، جب کہ وہ قانوناً اس کے مجاز نہیں تھے اور اسی کو بنیادبنا کر ورما عدالت گئے ہوئے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کمیٹی سی بی آئی ڈائریکٹر کو ۲؍برسوں کے لئے مقرر کرتی ہے، اُسے ہی یہ حق حاصل ہے کہ کسی ناگزیر حالت میں ڈائریکٹر کو اس کے عہدے سے برطرف کرے نہ کہ وزیر اعظم یا سی وی سی۔ سی وی سی کی رپورٹ کی بنیا د وہ بیانات ہیں جوسی بی آئی کے سابق نمبر دو راکیش استھانا کے درج کرائے ہوئے ہیں اور جو خود ہی شک کے دائرے میں ہیں ۔ ان کے ایف آئی آر کو آخری وقت تک خارج کرنے کی عرضی کو عدالت نے نامنظور کر دی ہے ۔ان کی گرفتاری کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ممکن ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں جہاں ان کی پہلے بھی سبکی ہو چکی ہے۔استھانا وزیر اعظم مودی کے آدمی ہیں ،یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے، تو کیا یہ لگتا نہیں ہے کہ ورما کے خلاف پلان بنایا گیا تاکہ وہ کوئی ایسا کام انجام نہ دے سکیں جو مودی یا حکومت کے خلاف ہو۔رافیل کا معاملہ منہ پھاڑے کھڑا ہے اور عین ممکن تھا کہ اس تعلق سے مودی جی کے خلاف ورما کہیں ایف آئی آر نہ درج کر لیتے ،جیسے استھانا کے خلاف انہوں نے ایف آئی آردرج کر لیا تھا جسے ختم کرنے کیلئے استھانا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔گجرات فسادات کے زمانے میں ایک بھی ایف آئی آر مودی جی خلاف درج نہیں ہو سکا تھا لیکن امیت شاہ اس سے نہیں بچ سکے تھے ۔اس وجہ سے وہ کئی ماہ تک جیل میں بھی رہے اور گجرات سے تڑی پار بھی۔ ایوانِ عدل میں ایسے کھیل بھی کھیلے جارہے ہیں جو نہیں کھیلے جاتے تو ہندوستانی جمہوریت کیلئے اچھا ہوتا اور خود مختار اداروں کیلئے بھی۔
چونکہ جسٹس سیکری چیف جسٹس کی جگہ پر اُس کمیٹی میں ڈپیوٹ کئے گئے یعنی وہ ایک قائمقام کی حیثیت سے میٹنگ میں تھے۔جو باتیں چیف جسٹس نے کہی ہوں گی وہی انہوں نے وہاں دوہرایا ہوگا۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ پہلے سے یہ طے ہو گیا تھا کہ کیا کرنا ہے۔پھر اس طرح کی باتیں باہر گشت نہیں کرتیںاور جب سابق جسٹس پٹنائک نے جن کی دیکھ ریکھ میں سی وی سی نے اپنا کام انجام دیا تھا، یہ کہا کہ سی وی سی کوئی ثبوت ورما کے خلاف پیش نہیں کر سکی تب جاکر جسٹس سیکری نے اپنی اُس رضا مندی کو واپس لے لیا جو مودی حکومت ان کی ۶؍ مارچ کو سبکدوشی کے بعدکامن ویلتھ سیکریٹریٹ ٹریبونل کے سلسلے میں لندن بھیجنے والی تھی اورجس کی رُو سے سال میں تین بار انہیں اس محکمے میں لندن جانا تھا۔جسٹس صاحب کا یہ بیان آیا کہ وہ کسی طرح کے تنازعہ میں پڑنا نہیں چاہتے ،اس لئے اپنی اُس رضا مندی کو منسوخ کرتے ہیں۔حالانکہ ان کا کیرئیر پوری طرح صاف و شفاف ہے لیکن مودی حکومت کی وجہ سے اس طرح کی باتیں بھی ہونے لگیں جن سے ایک نیک وامانت دار شخص کی شبیہ بھی شک کے دائرے میں آجاتی ہے ۔حال ہی میں جن دو ججوں جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دنیش مہیشوری کا تقرر سپریم کورٹ میں ہوا ہے، اُس تعلق سے بھی چہ مہ گوئیاں ہونے لگی ہیں ۔جو ادارہ ججوں کا نام حکومت کے پاس بھیجتی ہے، اُس نے مبینہ طورپہلے راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پردیپ جوگ اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر مینن کا نام سُجھایا تھا لیکن ۱۰؍جنوری کو کالیجیم نے اپنا فیصلہ بدلتے ہوئے نیا سجھاؤ حکومت کو بھیج دیا اور حکومت کی قبولیت کے بعد اول الذکر دو ججوں کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا۔ اس کے علاوہ ’’آپریشن لوٹس یعنی آپریشن کنول ‘‘نام سے جو کھیل بی جے پی نے کرناٹک میں کھیلا ہے اور ایک چلتی پھرتی ریاستی حکومت کو گرانے کی کوشش کی ہے ،جو ظاہر ہے کہ ہائی کمان کے اشارے کے بغیر نہیںہو سکتا ،تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کیلئے بی جے پی کس قدر حدیں پھلانگ سکتی ہے اور کہاں تک جا سکتی ہے۔شاید پارٹی بھول چکی ہے کہ کرناٹک میںاس کے گورنر کی مہربانی سے اسے حکومت بنانے کا موقع دیا جا چکا تھاکیونکہ گورنرنے فلور ٹیسٹ کیلئے اچھا خاصا وقت یا وقفہ اسے دیا تھا، جسے مجازعدالت میں چیلنج کرنے کے بعد ۴۸؍گھنٹے میں تبدیل کیا گیا تھا۔کیا بی جے پی یہ ساری اچھوتی کہانی بھول گئی ہے؟ اسے یہ کیوں لگتا ہے کہ کرناٹک کے گورنر صاحب ایک بار پھر اسے وقت دیں گے؟کہاں تک من مانیاں اور غیر جمہوری کام کر تی رہے گی بی جے پی؟اسی لئے مبصرین علی الاعلان کہتے ہیں کہ راج نیتی میں سارے غلط اور غیر جمہوری کام بتدریج مودی جی سے منسوب ہوتے جا رہے ہیں ! کیا وزیراعظم کے پاس اس عام تاثر کو جھٹلانے کی کوئی ٹھوس دلیل ہے ؟
( نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)