گذشتہ چار برسوں میں بی جے پی کے آدمیوںکی سائیکی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے۔یہ خود کو بے تاج بادشاہ سمجھنے لگے ہیں اور انہیں ملک کے قانون اور نظم و نسق کی کوئی پروا نہیں۔اس لئے کہ نہ صرف ان کی سیاسی سرپرستی ویتی ہیبلکہ خاموش رہ کر ان کی گو یا تائید کی جاتی ہے۔یہی سبب ہے کہ ان کے حوصلے کافی بلند ہیں اور یہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ایسا اٹل بہاری واجپئی کے بی جے پی میں نہیں تھا اور خیر سے اڈوانی کے بی جے پی میں بھی اس طرح کی پر تشدد جارحیت نہیں تھی۔اگرچہ بی جے پی کو اس مقام تک پہنچانے میں لال کرشن اڈوانی کی’’ محنت ‘‘ کازیادہ عمل دخل ہے لیکن ملک کی سلامتی اس لئے بچی رہ گئی کہ ان کے ساتھ ایک لبرل واجپئی موجود تھے۔کہا جاتا ہے کہ وزیر علیٰ بننے سے پہلے مودی جی رام جنم بھومی تحریک میں اڈوانی کے رَتھ کے ساتھ ساتھ ان کا مائک پکڑے رہتے تھے ۔گجرات کے ۲۰۰۲ ء کے مسلم کش فسادات کے بعد واجپئی جی تو چاہتے تھے کہ مودی کی حکوت کو برخواست کر دیا جائے لیکن یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے مودی کی گرتی ساکھ کو مضبوط سہارا دیا اور مودی جی وزارت وامارت برقرار رہی۔ مرکز میںمودی سرکار آنے کے بعد مالیگاؤں،سمجھوتہ ایکسپریس اور اجمیر بلاسٹ مقدموں میں کس طرح خاطیوں کو ضمانت پر رہا کیا گیا اور مقدمات کو کمزور کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ اِن تمام مقدموں میں ہندو توادی ملوث ہیںاور مودی کی نظر میں ہندو توادی ملک کے غدار ہو ہی نہیں سکتے۔اسی طرح یوپی کی یوگی حکومت نے مظفر نگر اورشاملی کے فساد ملزمان کے مقدموں کو واپس لینا شروع کر دیا ہے۔ایک طرف تو خاطیوں کو آزاد کیا جا رہا ہے ، دوسری طرف مبینہ طور چھوٹے موٹے مجرموں کا ’’انکاؤنٹر‘‘ کیا جا رہا ہے۔یوگی حکومت میں ایک برس میں ایک ہزارسے زیادہ ’’انکاؤنٹرس ‘‘ ہو چکے ہیں ۔مارے جا نے والوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں بلکہ ٹارگیٹ ہی وہی ہیں۔جب ان کے گھر والے ’’جعلی انکاؤنٹر‘‘ کا معاملہ لے کر پولیس کے پاس جاتے ہیں یا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو یوگی کی پولیس اُلٹا اُنہیں ’’ریپ کیس‘‘ میں پھنسا دیتی ہے جب کہ اُن کی عمریں ۶۰؍برس سے زیادہ ہوتی ہیں۔
بی جے پی لیڈروں کی بالائے قانون ہم ہستی کا ایک تماشہ یوپی کے ضلع اُنّاؤ میں حال ہی پیش آیا ۔یہ المیہ منظر عام پر آتا ہی نہیں اگر ۱۷؍برس کی متاثرہ’’ عزت باختہ‘‘ مظلوم لڑکی نے یوگی کی رہائش گاہ کے سامنے خود سوزی کی کوشش نہ کی ہوتی۔اُس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں بچا تھا کیونکہ اس کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کے بعد تو اس پر پہاڑ ہی ٹوٹ پڑاکہ اُس کے والد کی موت پر اسرار حالت میں جیل کے اندر ہو گئی ۔پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ زدو کوب کرنے سے اس کی موت واقع ہوئی ۔متاثرہ کا یہ الزم ہے کہ گزشتہ برس ۴؍جون کو بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر نے اپنے گھر میں اس کا ریپ کیا تھا جب وہ نوکری کی دروخواست لے کراس کے گھر گئی تھی۔ نوکری تو نہیں ملی البتہ عصمت سے ہاتھ دھویا۔اُس کے بعد گھر والے ایف آئی آر درج کروانے کے لئے پولیس اسٹیشن کا چکر کاٹتے رہے لیکن ایم ایل اے کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔ہوئی بھی تو اُس میں ایم ایل اے کا نام نہیں تھا۔فیملی جب عدالت سے نام جوڑنے کے لئے رجوع ہوئی تو اُلٹا متاثرہ کے والد کے خلاف ۳؍ اپریل کو ’’اسلحہ رکھنے کے جرم‘‘ میں گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال کر اُسے ُبری طرح مارا پیٹا گیا جس سے وہ جانبر نہیں ہوسکا۔اتنا سب ہونے کے باوجود بھی یوگی حکومت مذکورہ ایم ایل اے کو بچاتی رہی بلکہ بی جے پی کے ہی ایک لیڈر نے ٹویٹ کر کے بتایا کہ کوئی بڑا لیڈر’’سینگر‘‘ کو بچانے میں پیش پیش تھا ۔اگرچہ ایس آئی ٹی اور سی بی آئی اس مقدمے کی جانچ کر رہی ہیں لیکن اندیشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سی بی آئی کو یوگی حکومت نے آناً فاناً مقدمہ سونپ دیا تا کہ آئیں بائیں شائیں کر کے ملزم کو بچایا جائے۔سی بی آئی نے بھی اُس وقت تک ملزم ایم ایل اے کو گرفتار نہیں کیا جب تک الہٰ باد ہائی کورٹ کی طرف سے باضابطہ طور اس کا حکم نہیں دیاگیا۔
اس سے بھی زیادہ گھناؤنا المیہ جموں کے کٹھوعہ ضلع میں۳؍ ماہ پہلے پیش آیا جب ایک ۸؍سالہ خانہ بدوش بچی کو مندر کے اندر مندر کے نگراں نے اپنے ساتھیوں اور بھتیجے ، بیٹے اور ایک پولیس کرمی کے ساتھ اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔اس معصومہ کے ساتھ کئی بار’’ گینگ ریپ‘‘ کیا گیااور مقدمے کے ثبوت و شواہد مٹانے کے لئے جو ۲؍پولیس والے ملوث تھے ،گرفتار شدگان میں وہ بھی شامل ہیں ۔اس معاملے میں ۸؍افراد کو جب گرفتار کیا گیا تھا تو ان کی حمایت میں جموں کی نو زائیدہ ’’ہندو ایکتا منچ‘‘ نے ریلیاں نکالیں اور بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم کے نعرے لگاکر ’’نردوشوں‘‘ کو رہاکرنے اور کیس سی بی آئی کے سپرد کر نے کی مانگ کی۔واضح رہے تمام ملزمین ہندو ہیں اور متاثرہ ایک مسلمان بچی ہے۔حد تو اس وقت ہوگئی جب ۳ ؍ ماہ بعد۱۰؍ اپریل کوجموں کشمیر پولیس چارج شیٹ داخل کرنے کے لئے عدالت پہنچی تو ضلعی بار کونسل کھٹوعہ نے ایک مورچہ نکالا اور پولیس کو مجاز عدالت میںچارج شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی ۔ ادھر جموں ہائی کورٹ کے بار صدر بی ای سلاتھیہ نے جموں بند کی کال دے کر بالفعل ملزموں کے شانے تھپتھپائے ۔ جموں کشمیر کی حکومت میں بی جے پی کے ۲؍وزراء،لعل سنگھ اور چندر پرکاش گنگا بھی ملزموں کے حق میں اور پولیس کرائم برانچ کی مخالفت میں زعفرانی ریلی میں شریک ہوئے ۔یہ سب دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو حرکت میں آنا پڑااورکٹھوعہ بار کونسل اور جموں بار کونسل کے ساتھ ہی بار کونسل آف انڈیا کو بھی عدالت عظمیٰ نے نوٹس جاری کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اگرچہ اس مقدمے میں چارج شیٹ تو داخل ہو گئی ہے لیکن اس پورے معاملے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ زعفرانیوں کا مکروہ چہرہ ہے ۔اچھی بات یہ ہے کہ کٹھوعہ واقعے پر تمام ہندوستانی ایک ہیں اور جتنی بھی سرکردہ شخصیات ہیں، سب کے مذمتی بیانات آگئے ہیں اور سب کے سب انسانیت اور گنگا جمنی تہذیب پر واری ہیں لیکن مضمون لکھے جانے تک اگر کوئی بیان نہیں آیا ہے تو وزیر اعظم مودی کا جو بات بات پر ٹویٹ کرنے کے عادی ہیں۔پتہ نہیں یہ کیوں مون برت لیتے ہیں جب کہ یہ من موہن سنگھ کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ خاموش رہتے ہیں۔انّاؤ والے واقعے میں بھی یوگی کی حکومت عدالت کے دباؤ سے حرکت میں آئی ورنہ اس کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ایم ایل اے گرفتار ہو۔اس لحاظ سے دیکھیں تو وزیر اعظم کا ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ اسکیم نہیں صرف ایک کھوکھلانعرہ ہے۔ مودی اور یوگی کے راج میں بہو بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔بی جے پی کی ترجمان میناکشی لیکھی جب یہ کہتی ہیں کہ ایک ایم ایل اے کی حرکت تمام بی جے پی والوں پر صادق نہیں آتی ،تو وہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں انہی کے لوگ ایک مسلمان کی حرکت کو پوری قوم سے جوڑ دیتے ہیںاور یہاں تو جموں میں بی جے پی کے وزراء بھی ریپ کے الزام میںمقید لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ان سب حقائق کے درمیان مودی جی ’’اُپواس‘‘ کر رہے ہیں اوراپنے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کا آدیش دے رہے ہیں۔یہ اُپواس حزبِ اختلاف بالخصوص کانگریس کے جواب میں ہے۔وہ عوام کو یہ بتلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کانگریس نے نہیںچلنے دی۔اس سے پہلے بھی وہ لوگ پارلیمنٹ سیشن کے آخری دن پلے کارڈس لے کر پارلیمنٹ کے باہری احاطے میں ٹھیک اُسی جگہ اُسی اندازمیں احتجاج کر رہے تھے جہاں دودن پہلے حزبِ اختلاف یعنی کانگریس نے احتجاج کیا تھا۔اب بھلا بتائیں حکومت احتجاج کرے اور وہ بھی کانگریس کی ’’ نقل‘‘ میں تو دیس کا کیا ہوگا؟اس نقالی کا سیدھا مطلب ہے کہ مودی اور امیت شاہ نیز بی جے پی کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883
ا