ملک عزیزکی سیاست جس راستے پر گامزن ہے اور بالخصوص بی جے پی کے تھنک ٹینک اسے جس سمت میںلے جانا چاہتے ہیں ،اس کا تجزیہ کرتے وقت ایک عجیب سی گھناؤنی فضا کا احساس ہوتا ہے۔جس وقت یہ کالم آپ کے ہاتھوں میں ہوگا ممکن ہے کہ مرکزی کابینہ کی توسیع عمل میں آئی ہوگی اور بہت سارے عجوبے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے۔مرکزی کابینہ کی توسیع ایک طویل عرصے سے کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔بی جے پی یا این ڈی اے کے پاس یا تو اس کے لائق امیدوار نہیں ہیںیا وزیر اعظم مودی اِس توسیع کی ضروری نہیں سمجھتے۔اب دیکھئے نا! دفاع جیسے حساس اور اہم وزارت ، تقریباً ۲۰؍مہینوں سے خالی ہے جب کہ اِدھر جموں کشمیر و لداخ سے لے کر بھوٹان۔چین کے ڈوکلام پٹھار نیز چین کے ساتھ ۷۰؍دنوں تک قائم معرکہ آرائی میں ایک آزاد اور مکمل وزیر دفاع کی نہ صرف ضرورت محسوس ہوئی بلکہ ملک نے یہ بھی دیکھا کہ کل وقتی وزیر دفاع کی غیر موجودگی نے شورش اور حالات کو مزید بگاڑا۔لے دے کر ایک ارون جیٹلی دکھائی دیتے ہیں جن کے پاس اتفاق سے وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی ہے اور جنہوں نے بطور وزیر خزانہ ملک کی معیشت کا بٹہ لگا دیا ہے۔نوٹ بندی پر ۱۰؍ماہ کے طویل مدت کے بعدجو رپورٹ آر بی آئی نے پیش کی ہے وہ بھکتوں کے لئے نہ صرف تازیانۂ عبرت ہے بلکہ ان کے چودہ طبق روشن کر دینے کے لئے کافی ہے۔ وہ اب بغلیں جھانکنے لگے ہیں کیونکہ نوٹ بندی سے حکومت کو صرف اور صرف نقصان ہوا ہے جس میں ہزارہا کروڑ روپے کے ساتھ غیر طبعی اموات اور درد کے علاوہ عوام کے قیمتی وقت کا ضائع ہونا بھی شامل ہیں۔معیشت پر’’ مرے پر سو دُرے‘‘ کا کام ٹیکس کے نئے نظام جی ایس ٹی نے کیا ہے جس کے نافذ ہونے کے بعد ہی سے چھوٹے اور متوسط زمرے کے بیوپاریوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ان کا دھندہ ہی چوپٹ ہو گیا۔ایسا ضرور ہوا ہے کہ حکومت کے اعلان کے مطابق تقریباً ۹۲؍ہزار کروڑ روپے صرف جولائی میں جی ایس ٹی کے مد میں جمع ہوئے لیکن حکومت یہ نہیں بتاتی کہ جو ٹیکس کا نظام پہلے نافذ تھا اُس کے تحت کتنے روپے خزانے میں آتے تھے۔وہ گزشتہ سال کے جولائی یا رواں برس جون کا ہی تخمینہ اگرساتھ میں پیش کردیتی تو موازنہ کرنے میں آسانی ہوتی اور پتہ چل جاتا کہ اِس حکومت نے کون سا اور کتنا تیر مارا ہے۔ اسی طرح نوٹ بندی کی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے جب جیٹلی کہتے ہیں کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے یعنی کہ تقریباً۵۰؍لاکھ نئے لوگ ٹیکس ریٹرن بھرنے لگے ہیں ۔تو اُن کی سادہ لوحی پرہنسنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ جو نئے ٹیکس دہندگان جُڑے ہیں وہ رقم کی صورت میں کتنے روپے جمع کر رہے ہیں اور خزانے میں اضافی رقم کتنی آرہی ہے؟اس پر طرہ یہ کہ گھریلو مجموعی پیداوار جسے جی ڈی پی کہتے ہیں، اس میں بھی ۳؍برسوں میں۲؍فیصد سے زیادہ کی گراوٹ آئی ہے اوریہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی(اپریل سے جون ۲۰۱۷) میں ۷ء۵؍فیصد رہی جب کہ گزشتہ برس اسی سہ ماہی میں یہ ۹ء۷؍فیصد تھی۔یہ لوگ کس قدر عوام کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں ،اسی ایک امرسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بدیں وجہ ارون جیٹلی ایک ناکام وزیر خزانہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اور وزیر دفاع کی صورت میں تو انہیں کوئی یاد بھی رکھنا نہیں چاہے گا۔
بات چل رہی تھی مرکزی کابینہ میں توسیع کی اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے خطرناک ارادوں کی ،کہ یہ دونوں ہندوستان کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔تمل ناڈو سے ان کا کوئی نمائندہ مرکزی کابینہ میں نہیں ہے،اس لئے یہ چاہتے تھے کہ وہاں سے نمائندگی (دینے )کے لئے ’’آل انڈیا انا ڈی ایم کے‘‘ کو وزارت میں شامل کر لیںلیکن وہاں کے سیاسی حالات اور پیچیدگیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔جب صرف ۹؍ایم ایل ایز کو لے کر اپنے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعداِی پنیر سیلوم(اِی پی ایس) نے بغاوت کا بگل بجایاتھا اور گورنرشری ودیا ساگر راؤ سے ملے تھے اور اسمبلی میں فلور ٹیست کرنے کی بات کی تھی توگورنر محترم نے نہ صرف ان کی بات مانی بلکہ اسی برس اپریل میں فلور ٹیسٹ بھی کروایا لیکن اُن کے حریف اِی پلانیسامی(اِی پی ایس) کامیاب و کامران نکلے جس کو شسی کلااور دینا کرن نے نامزد کیا تھالیکن نئے پیدا شدہ حالات کے تحت جب دیناکرن کے ۱۹؍ایم ایل ایز یا اس سے بھی زیادہ گورنر سے مل کر اِی پی ایس کے خلاف فلور ٹیسٹ چاہتے ہیں تو گورنر صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔اب تو حزب اختلاف کے ڈی ایم کے‘ اور کانگریس بھی کمر بستہ ہو گئے ہیں لیکن جناب ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں ۔وجہ بالکل صاف ہے ،وہ یہ کہ جناب مرکزی حکومت کے اشارے پر کام کر رہے ہیں اور مرکزی حکومت بلکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ۔یہ جمہوریت کو دغا دینے کے مترادف ہے کیونکہ موصوف جان چکے ہیں کہ حکومت اقلیت میں آگئی ہے اور یہی سبب ہے کہ یہ قضیہ صدرِ ہند کے دربار میں چلا آیا ہے۔کیا صدرِ ہند کوئی اہم فیصلہ لیں گے؟ اس کی کم ہی امید ہے۔اب آتے ہیں ہم شرد پوار کی طرف۔شرد پوار کی چپی سے اِن دنوں پورا ہندوستان واقف ہے۔وہ مودی یا بی جے پی حکومت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتے ۔کہا جاتا ہے کہ مرکز میں یو پی اے حکومت کے دور میں اور یہاں مہاراشٹر کی اتحادی حکومت میں بدعنوانی کے معاملات میں کانگریس سے زیادہ این سی پی یعنی شرد پوار کی پارٹی کے لیڈر ملوث رہے ہیں جن میں پرفل پٹیل سے لے کر اجیت پوار نیز سنیل تتکرے تک کے نام شامل ہو سکتے ہیں۔این سی پی کے ایک صاحب اور ان کے رشتے دار(بھجبلز) جیل کی ہوا تو کھا ہی رہے ہیں ۔اسی لئے سی بی آئی،انکم ٹیکس اور اِی ڈی وغیرہ سے بچنے کے لئے پوار صاحب نے چپ رہنے کی قسم کھائی ہے۔یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن بی جے پی کو کیا ہوا ہے کہ سننے میں آرہا ہے کہ این سی پی ،مرکزی وزارت میں شامل ہو سکتی ہے اور صوبہ مہاراشٹر میں ایک نئی صف بندی وجود میں آسکتی ہے۔وہ یوں کہ بی جے پی اور شیو سینا کی کشیدگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور بی جے پی شیو سینا کے نخرے برداشت کرتے کرتے تھک چکی ہے۔ابھی حال ہی میں ہونے والیمیرا۔بائندرہ میونسپل الیکشن میں دونوں کی رقابت طشت از بام ہو گئی جب شیوسینا کے سنجے راؤت نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ بی جے پی نے مُنی اور مَنی کا سہارا لے کر یہ الیکشن جیتایعنی کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرکے ووٹ حاصل کیا کیونکہ جین مُنی (جینیوں کے گرو)نے کھلے عام اعلان کیا تھا کہ اس علاقے کو اگر مانس مچھلی اور انڈوں سے پاک رکھنا ہے تو بی جے پی کو ووٹ دیں۔مرکز میں شرد پوار سے اتحاد کے بعد شیوسینا خود بخود الگ ہو جائے گی اور یہاں این سی پی کے پاس اتنی سیٹیں ہیں کہ مہاراشٹر اسمبلی میں بی جے پی کو اکثریت ثابت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ایک فائدہ جو بی جے پی دیکھ رہی ہے وہ یہ کہ علاحدہ ریاست’’ودربھ‘ ‘کے لئے بھی ریزولوشن پیش کر دے کیونکہ بی جے پی اور آرایس ایس کا یہ دیرینہ خواب ہے کہ ناگپور کو راجدھانی کادرجہ بھی ملے جہاں آر ایس ایس کا صدر دفتر موجود ہے۔شیوسینا مہاراشٹر کی تقسیم کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے اور وہ کسی قیمت پر نہیں چاہتی کہ ’’ودربھ‘ ‘وجود میں آئے۔یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ بی جے پی نے ’’ودربھ‘ ‘کی ۶۲؍ سیٹوں میں سے ۴۴؍ پر گزشتہ اسمبلی میں جیت درج کی ہے اور اس کے ۱۰؍ میں سے ۶؍ لوک سبھا کے ممبر ہیں ۔این سی پی ’ودربھ‘ کے قیام کی حامی رہی ہے۔اس لئے آنے والے دنوں میں وزارت کا لالچ دے کر بی جے پی ایک بڑے پیمانے پر ہندوستان پر حکومت کرنے کی سوچ رہی ہے اور اس میں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو بھی وہ وقعت کی نظر سے دیکھ رہی ہے کیونکہ شرد پوار کے پاس مہاراشٹر میں صرف ۴؍ ایم پیز ہیں جب کہ بہار میں طارق انوار کی صورت میں ایک۔بہار میں بھی یہی حال ہے ۔نتیش کمار کے پاس بھی صرف۲؍ لوک سبھا کے ایم پیز ہیں لیکن انہیں بھی وزارت ڈھنگ سے تفویض کی جاسکتی ہے تاکہ ’’پلٹو رام‘‘ (لالو کی زبان میں ) کہیں پلٹ نہ جائیں۔
سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بی جے پی کے پاس قابل لوگوں کی کمی ہے۔اسی لئے ان کے پاس کوئی لائق و فائق وزیرنہیں ہے۔اُن کو ڈھنگ کے گورنر بھی نہیں ملتے جبھی تو گورنر کے کئی عہدے خالی پڑے ہیں۔جو لوگ قابل ہیں وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی سے متفق نہیں ہو پاتے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس نئی کابینہ کی توسیع میں کن لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ملک تو چلتا ہی رہے گا لیکن کھٹر،یوگی،ایرانی،بھارتی حتیٰ کہ سوراج وغیرہ بھی ملک کا کیا حال کر کے چھوڑیں گے ،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883