طارق اعظم
دنیا جہاں میں ہر چیز کا ایک مرکز ہوتا ہے۔ جس کے احکامات بجا لانے میں وہ سارے عناصر ایک ایک لحظہ کوشاں رہتے ہیں۔ جیسے اگر نظامِ فلکیات پر غور کیا جائے ،تو عجیب و غریب مناظر منکشف ہوتے ہیں کہ کس طرح اور کس تابع داری سے سیارے ایک روشن آفتاب کے ارد گرد طوافوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اور پوری کائنات کا نظام متوازن رکھا ہے۔ بعینہ کھنکناتی مٹی سے تحلیق کردہ انسان میں ایک دل نامی مرکز ہے، جس کا ظاہر و باطن اور شکل و صورت بالکل منفرد ہے۔ بظاہر تو چار باریک خانوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا نظر آرہا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے اس دل کی باطنی بناوٹ پر ہر ذی شعور کو حیران و دھنگ کر کے رکھ دیا ہے، کہ قلزم بھی دل کی گہرائی کی دہلیز پر کشکول لیے بیٹھا ہے۔ ہمالیہ کی قوت ریزہ ریزہ ہوگئی قوتِ دل دیکھ کر۔ دل کی وسعت کے آگے میدانوں کے میدان ہارے ہیں۔ دل ہے ہی عجب چیز، اس کی قیمت یوں سمجھو کہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں۔’’ نہ میںتمہاری شکل و صورت کو دیکھتا ہوں ، نہ تمہارے مال و زر کو اور نہ ہی حسب و نسب کو ۔ بلکہ تمہارے سینے کے اندر جو دل ہے، اس کی جانب دیکھتا ہوں۔‘‘ اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ بھی ہے دل کا کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مسکن بھی قرار دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے جس دل کو اللہ پاک نے اپنا گھر کہا، وہ دل کس قدر کا پاک و صاف بھی ہونا چاہیے۔ پاکی اور صفائی سے مراد یہ نہیں کہ جس طرح سے ہم گھروں کو مزین کرتے ہیں، شیشوں سے، قسم قسم کے رنگوں سے ، چمک دار کندیلوں سے اور گداز قالینوں سے، تاکہ لوگ ہمارے گھر کو دیکھ کر متاثر ہوجائیں اور اسکی خوبصورتی کو دیکھ دیکھ کر اسی کے عاشق ہوجائیں۔ چنانچہ اللہ پاک نے پہلے ہی فرمایا ہے کہ نہ میںتمہارے مال و جائیدا اور شکل و صورت کو دیکھتا ہوں بلکہ فقط آپ کے دل کو دیکھتا ہوں ۔ یعنی اس دِل کو اللہ پاک نے پسند کیا جس میں تقویٰ و طہارت ہو ، عشق و محبت ہو ،اورجو کینہ ، بغض ، حسد ، عداوت، کبر ، عجب اور انا جیسی گندگیوں سے پاک و صاف ہو،اور جس دِل میں لوگوں کو نفع پہنچانا اور شر سے محفوظ رکھنے کا جذبہ ہو، جس دل میں بیمارکی تیمار داری کا شوق ہو۔جو دل بے سہارا، مستحق ، مسکین اور لاچار کی کی مجبوری کودیکھ کر رو رہا ہے اور تب تک چین سے قرار نہیںپاتا ہو، جب تک کما حقہ انکی حاجت روائی نہیں کرتا ہو۔ مطلب جس دل میں اللہ اور اللہ کی مخلوق سے اُلفت کا دریا بہہ رہا ہو، اُسی دل کو اللہ پاک نے اپنا مسکن کہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ کسی چیز کو بنانے اور سنوارنے میں ایک اچھے کاری گر کا ہنر مند ہاتھ ہوتا ہے۔ جیسے عمارت ، مکان اور دکان وغیرہ بنانے کے لیے ترکھان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کپڑوں کو صحیح ڈھنگ سے درزی ہی سلائی کرسکتا ہے۔ غرض کہ ہر چیز کی صورت کو سنوارنے کے لیے اللہ پاک نے منفرد ہنرمند پیدا کئے ہیں۔ ٹھیک اُسی طرح دِل کی زمین کو ذرخیز بنانے ، اور پھر اس زمین پر رنگا رنگ خوشبودار گلشن بنانے کے لئے نیک اور صالح اعمال بھی عطا کئے ہیں۔جبکہ اس گلشن میں طرح طرح مہکتے چمن کو اُگانے کے لئے اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ بندوں کو مبعوث کیا ہے۔پیغمبروں کی صورت میں ، ولیوں کی صورت میں ، علمائے کرام کی صورت میں۔ ایسی پاکباز جماعتوں میں دل بن جاتا ہے۔ دورِ نبوی میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جماعت کےدلوں پر محنت کی، ان کو رموزِ تربیت سے آشنا کیا، نیکی اور بدی سے آگاہ کیا کہ کس عمل سے دل کو زینت ،نورانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے اور کن اعمال سے دل کی زمین سخت ہوجاتی ہے۔ اتنی سخت کہ پھر اصل اور خراب، حرام اور حلال میں ذرہ برابر بھی پہچان نہیں رہتی ہے۔ جس کو قرآنِ عظیم نے یوں بیان کیا کہ ان کے دلوں پر پھر مہر لگا دی جاتی ہیں، ایسے لوگ ہدایت کی بات سنتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ تواریخ کے کتُب میں درجنوں واقعات ہیں کہ جن کے قلوب نیک اور صالح انسانوں کی صحبت سے محروم ہوئے، وہ کس قدر بگڑ گئےہیں۔ ان کی زندگی کیسے رائیگان ہوگئی اور ان پر اللہ پاک کی ناراضگی کس کس روپ میں اُن پر مسلط ہوئی۔ ایسے بہت سارے واقعات کتابوں میں درج پرے ہیں۔ لیکن یہاں محض ایک کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ سورہ نوح میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ نوح علیہ سلام نے اپنی قوم کو لیل و نہار دعوت دی کہ ایک خدا کے آگے جھکو، وہی خالق و مالک ہے۔ لیکن انہوں نے آپ ؑ کی بات پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ اس دعوت کو ٹھکرا دیا۔وجہ صاف تھی کہ ان کے دلوں میں بتوں کی تصاویر بسی ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ پتھر کے تراشے ہوئےبُت کیا کرسکتے ہیں، مگر دل کی زمین بنجر ہوچکی تھی۔ حق کی بات کو کیسے قبول کرسکتے ۔ یہاں تک کہ اپنے کانوں میں انگلیاں بھی بھر دی کہ کہیں نوح علیہ السلام کی بات کانوں میں نہ پڑے ،اس طرح انہوں نے اچھی اور برگزیدہ صحبت سے انحراف کرکے اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کا مستحق بنا دیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا کنان نے بھی اپنے باپ کی صحبت سے اختیار کرنے سے اعراض کیا ،دل بگڑ گیا تھا،اور کہا کہ اِس پہاڑ پر پانی نہیں چڑ سکتا ۔ لیکن اسے کیا خبر تھی کہ اس کے ایک کُن سے ساری کائنات فیکن ہوگئی۔ چشمِ فلک گواہ ہے کہ پانی نے کس طرح کنان کو گھسیٹ کر غرقِ سیلاب کردیا ہے۔ اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جن جن لوگوں نے نوح علیہ السلام کی بات مانی ، اُن کی صحبت کو اختیار کیا ،پھر اُن کی کہی ہوئی باتوں کو دل سے تسلیم کیا،جو خاکہ ،جو فرامین نوح ؑ پر نازل ہوا کرتا تھا، اُس پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہوجاتے تھے۔ انہی ایمان دار لوگوں کو اللہ پاک نے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ کر کامیابی کے انوارات اُن کے دلوں پر نازل کئے۔
ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جو ہم زبان سے اقرار کرتے ہیں، اس کی تصدیق دل سے بھی کی جائے، ورنہ ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ لوگ زبان سے بہت اقرار کرتے تھے۔ لیکن ان کے دل تاریکی کے شبہات میں بھٹک چکے تھے۔ باہر سے ایک کام اور اندر سے کچھ اور۔ قرآنِ مجید نے ایسے انسان کو منافق کے نام سے نوازا۔ ساتھ ساتھ منافقین کو یہ بھی بشارت سنائی کہ عقبیٰ میں سب سے زیادہ عذاب منافق کو ہی ہوگا۔ دو رُخی اللہ پاک کو بالکل بھی پسند نہیں۔ کیوں کہ منافق اور دل کے بگڑے ہوئے لوگوں سے زمین پر امن اور سکون کی فضا آلودہ ہوجاتی ہے۔ اور دل کے سچے اور مخلص لوگوں کے نور سے عمیق سے عمیق شبِ ظلمت ٹوٹ جاتی ہے اور ایک نئی صبح کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جس میں نہ فتنہ نہ فساد نہ جبر نہ ظلم و ستم نہ چوری ڈکیتی نہ شراب نوشی اورنہ بدکاری کی ہوا کرتی ہے۔ شش جہات میں امن و سکون ،اخوت و ہمدردی، دلداری ، روادی اور عدل و انصاف کا سما ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں یہاں قلم بند کرتا ہوں کہ جنابِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضاب ہوا ایک عظیم انسان ہے۔ جس کی برکت سے بڑے سے بڑے فتنے ختم ہوگئے۔ عدل و انصاف کی عطر سے اس وقت ہرانسان معطر ہوا۔ امن و سکون کی ہوا اس قدر چلی کہ بکرا اور بھیڑیا ایک ساتھ پانی پینے لگنے لگے۔ وہ عظیم اتنا گدازِ دل تھاکہ راتوں کو در در چکر لگاتا تھا کہ کہیں کوئی بھوکا نہ رہے، کوئی درد سے پریشان نہ رہے۔ ایک رات کا واقعہ ہے کہ ایک غریب بوڑھی عورت نے چولے پر خالی ہانڈی رکھی تھی، اولاد کی تسلی کے واسطے اور وہ بوڑھی ماں اس چولے کو پھونک رہی تھی۔ تو وہاں اس عظیم انسان کا گزر ہوا۔ سارا قصہ دیکھ کر کچھ کھانے کا انتظام کرایا ۔ یہاں تک کہ خود بھی چولے کو پھونکا ، کھانا تیار کیا، انہیں کھلایا پلایا، ان کے مغموم چہرے پر راحت کی مسکراہٹ لائی۔ بوڑھی ماں سے کہنے لگے ،اب آپ خوش ہو ،نا ۔ وہ کہنے لگی کہ کاش آپ ہی امیر المومین ہوتے ۔ دعائیں دینے لگیں اور کہا، کل میں عقبیٰ میں اللہ پاک کے دربار میں عمر ؓ کی شکایت کروں گی ۔ تو اس عظیم انسان نے کہا: اماں میں ہی امیرالمومنین عمرؓ ہوں۔ ایسے ہوتے ہے اہل دل ، صاحبِ دل جن کو اپنے سے زیادہ اللہ کی مخلوق کی فکر رہتی ہے۔ خود تکالیف پر برداشت کئے، صبر کیا تاکہ قربِ الٰہی زیادہ سے زیادہ نصیب ہوجائے اور یقیناً انہیںنصیب بھی ہوا ۔
تو بچابچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شِکستہ ہو تو عزيز تر ہے نگاہ آئینہ ساز ميں
ناگاہِ باطنہ سے اگر دیکھا جائے تو آجکل معاشرے جن جن بے ہودہ اور شرمسار افعال کی صورت وجود میں آئی ہیں، وہ فقط دل کے بگاڑ کی وجہ ہے۔ کس مقام کی نفرت ، عداوت اور حسد ایک دوسرے کے لیے بیٹھے ہیں۔ ہم نے جتنا چہروں کو مزین کیا ہے، کاش! اس سے کم ہی دل کو بھی سنوارا ہوتا، تو سحر گری ، خودکشی ، قتل و غارت اور صنفِ نازک کی عزت و آبرو پر پڑنے والےڈاکے دیکھنے کو نہیں ملتے۔ یہ کتنی بڑی حماقت ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے کے لیے سحر کا استعمال کر رہا ہے اور اسے طرح طرح کے مصائب و آلام میں گرفت کرتا ہے۔ اگر چہ سحر کرنے والے کو یہ بھی خبر ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچانا کتنا بڑا جرم ہے اوراس پر اللہ کی زبردست پکڑ بھی ہوگی۔ لیکن پھر یہ کیوں کر رہا ہے؟۔ اسی لیے کہ دل بگڑ چکا ہے۔ دل کی زمین سخت ہوگئی ہے ۔ اس کے دل پر غفلت کا تالا لگ چکا ہے۔
لہٰذا ہمیں فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ ہم اپنے دل کو کیسے مہر لگنے سے بچا سکتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر صحبت کی تاثیر ہوتی ہے۔ انسان جس کی بھی صحبت اختیار کریں، اسی کی تاثیر جذب کرتا ہے۔ اگر انسان عطر کی دکان پر کچھ دیر ٹھہرتا ہے تو اچھی خوشبو سے معطر ہوجاتا ہے۔ بس اسی طرح ہم اگر اولیا اللہ کی ،علما ئے کرام کی اور اہلِ دل کی صحبت اختیار کریں گے، تو یقیناً ہمارے دل بھی بگڑنے بچ جائیں گے۔اس لئے اہلِ دلوں سے تعلق رکھنا نہایت ہی ضروری ہے، کیوں کہ آسانی سے یہ دل نہیں بنتا ہے۔
رابطہ۔ 6006362135