محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
انسان پیدائش کے بعد موت تک کئی مراحل سے گذرتا ہے، پہلے بچپن کی کلکاریاں ختم ہوتی ہیں اور وہ شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے، اس کی جسمانی اور دماغی حالت میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، پھر جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کی اُمنگیں، حوصلہ، جذبات سب کچھ بدل جاتے ہیں، جوانی کی سرحد پار کرکے جب وہ بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے تو اس کی طاقت وقوت فنا ہو چکی ہوتی ہے، کمر جھک جاتی ہے اور عموماً کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر ایک دن وہ موت کی آغوش میں چلا جا تا ہے۔
زندگی کے ہر مرحلے کو آسانی سے جیا جا سکتاہے، بشرطیکہ انسان بڑھتی عمر کے سایے میں ہونے والی تبدیلیوں سے ایڈجسٹ کرنا سیکھ جائے، وہ مان لے کہ اب ہماری صحت وقوت، دماغی حالت اور اعضاء وجوارح پہلے کی طرح نہیں رہے، یہ احساس انسان کو حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ظاہر ہے بڑھتی عمر اور اس کے اثرات کو روک پانا کسی کے بس میں نہیں، اس لئے اس عمرمیں جسمانی اور دماغی بدلاؤ کو ہی نہیں، خاندان کے رویہ کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے۔ حالات کے اعتبار سے اپنے سلوک میں نرمی اور لچیلا پن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مثبت طریقۂ کار اپنا نے ہوتے ہیں اور اپنے احساسات وخیالات کو نئے زاویہ سے دیکھنا ہوتا ہے، تبھی آپ بدلاؤ کا سامنا کرنے کے قابل ہوپاتے ہیں۔
بڑھاپا آناہی ہے اگر بچپن اور جوانی میں موت نے نہیں آلیا ،تو ایسے میں اپنے کو مشغول رکھنا سب سے زیادہ مفید اور کار آمد ہوتا ہے۔ یہ مشغولیت بال بچوں کے ساتھ گپیں لڑانے، اپنے تجربات ان تک منتقل کرنے اور زندگی کے نشیب وفراز سے انہیں واقف کرانے کی بھی ہو سکتی ہے۔ گاؤں،سماج کے لوگوں سے مضبوط روابط ان کی پریشانیوں میں حوصلہ افزائی اور تھوڑا وقت ان کے ساتھ گذارنا بھی اپنی صحت بنائے رکھنے کے کام آتا ہے، علم تو ماں کی گود سے قبر تک حاصل کیا جا سکتا ہے، کچھ نیا سیکھنے کے فیصلے بھی آپ کو بڑھتی عمر سے پیدا ہونے والے تناؤ سے نکالنے میں معاون ہوتے ہیں، مثلا گھریلو کاموں میں ہلکی پھلکی معاونت، اس سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی قدر وقیمت بھی بڑھے گی، خاندان کے لوگ آپ کی طرف متوجہ رہیں گے اور آپ کا خیال رکھیں گے۔ اگر آپ نے بچوں کی تربیت اسلامی نہج پر کی ہے تو وہ بُڑھاپے میں آپ کے کام آئیں گے اور کم از کم اولڈ ایج ہوم لے جا کر چھوڑ نہیں آئیں گے، اس کے لیے آپ کو بھی ان کا خیال رکھنا ہوگا۔ ٹھیک ہے آپ کو نیند نہیں آ رہی ہے، لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ جو لوگ سو رہے ہیں انہیں رات کے دیر گئے جگائیں، آپ اگر ان سے کوئی خدمت لینا چاہتے ہیں تو بھی ضروری ہے کہ ان کے آرام وراحت کے وقت میں اُنہیں زحمت نہ دیں۔ اگر آپ نے ان کے اوقات کا خیال نہیں رکھا تو وہ آپ سے عاجز آجائیں گے اور اُن کا سلوک بدل جائے گا۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کاموں پر اپنے عزیزوں کی تعریف کرنا، مثلا ًدلہن نے کھانا بنایا آپ اس میں خرابیاں نکال رہے ہیں، شریعت نے کھانے میں
خرابیاں نکالنے سے منع کیا ہے، تعریف کرنے سے نہیں۔ اس لیے جی بھر کر تعریف کیجئے اس کی وجہ سے ان کے دل میں آپ کے لیے خاصی جگہ بن جائے گی، یہ چند باتیں بڑوں کے تجربات پر مبنی ہیں۔ میری رائے ہے کہ بڑھتی عمر کے سایے کے اثرات سے پہلے خود کو ایڈجسٹ کرنا چاہئے، پھر خاندان اور سماج کے احوال کو دیکھ کر طریقۂ کار وضع کرنا چاہیے۔ مختلف خاندانوں کے احوال الگ الگ ہوتے ہیں، اس لئے ہر گھر میں ایک ہی فارمولہ کارگر نہیں ہوسکتا، اس کی تعیین خود کرنی ہوگی کہ عمر کی کس منزل میں ہمیں کون سا طریقہ اپنانا ہے۔