سمت بھارگو
راجوری//جموں و کشمیر کے ضلع راجوری کے پہاڑوں میں واقع دور دراز گاؤں بڈھال ایک ناقابلِ بیان سانحے کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ کے اندر پراسرار حالات میں سولہ افراد کی اموات نے گاؤں کو غم، خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔یہ سانحہ تین مختلف خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، جن کی زندگیوں پر ناقابلِ تلافی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان متاثرہ خاندانوں میں محمد اسلم کا خاندان سب سے زیادہ غمزدہ ہے، جس نے پانچ معصوم بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے گود لینے والے چچا اور پھوپھی کو بھی کھو دیا ہے۔سانحے کی شدت نے صرف دلوں کو ہی نہیں، بلکہ گاؤں کے جغرافیہ کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ گاؤں کے روایتی اور قدیم قبرستان میں مزید تدفین کی گنجائش ختم ہونے پر، متاثرہ خاندانوں کو اپنی زرعی زمین پر ایک نیا قبرستان بنانا پڑا۔مقامی رہائشی محمد زہیر گورسی کا کہنا ہے،’’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں اپنے پیاروں کے لئے یوں ایک نیا قبرستان بنانا پڑے گا۔ یہ ایسا المیہ ہے جس نے ہمارے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘‘۔یہ نیا قبرستان ان غمزدہ خاندانوں کے دکھ اور قربانیوں کی ایک خاموش یادگار بن چکا ہے، جو بڈھال کی فضاؤں میں گونج رہے ہیں۔بڈھال کے رہائشی اس غیر متوقع سانحے کے اثرات سے دوچار ہیں، لیکن جو چیز ان کے غم کو مزید گہرا کرتی ہے وہ ان اموات کی وجہ کے بارے میں غیر واضح صورتحال ہے۔ابتدائی طور پر ان اموات کو کسی متعدی بیماری کا نتیجہ سمجھا جا رہا تھا، لیکن حالیہ طبی رپورٹس میں زہریلے مادوں کے امکان کی نشاندہی کی گئی ہے، جو یا تو قدرتی جڑی بوٹیوں یا آلودہ پانی سے ہو سکتے ہیں۔بڈھال گاؤں، جو کوٹرنکہ سب ڈویژن کے دور دراز پہاڑی علاقے میں واقع ہے، پہلے ہی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا۔ تعلیم، صحت، اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی نے پہلے ہی یہاں کے لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، اور اب یہ پراسرار اموات ان کی زندگی کو مزید ناقابل برداشت بنا رہی ہیں۔ایک غمزدہ مقامی شخص نے کہاکہ ’’ہماری زندگی پہلے ہی مشکل تھی، لیکن یہ سانحہ ہماریلئے برداشت کی تمام حدوں کو پار کر گیا ہے‘‘۔حکام کی جانب سے ان پراسرار اموات کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم، ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے، جس نے گاؤں کے لوگوں کو مزید بے یقینی میں ڈال دیا ہے۔ کیا یہ اموات کسی حادثاتی زہریلے مادے کے استعمال کا نتیجہ ہیں، یا ان کے پیچھے کوئی مجرمانہ سازش ہے؟۔ایک اور مقامی شہر ی نے بتایا کہ ’’ہم ہر دن خوف کے سائے میں گزار رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ سانحہ دوبارہ کب اور کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا خوف ہے جو ہمیں کھائے جا رہا ہے‘‘۔بڈھال کے لوگ، اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود، ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس المیے میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ بانٹا ہے۔نیا قبرستان، جو گاؤں کی زمین پر قائم ہوا ہے، کمیونٹی کے اتحاد اور ان کے پیاروں کی یاد کو زندہ رکھنے کی علامت بن چکا ہے۔جہاں بڈھال گاؤں صدمے اور دکھ کے سائے میں جی رہا ہے، وہیں حکام کی جانب سے فوری کارروائی اور مدد کی یقین دہانی نے تھوڑی سی امید پیدا کی ہے۔ طبی ٹیمیں گاؤں میں تعینات کی جا رہی ہیں، اور حکومت نے متاثرہ خاندانوں کو امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن جب تک اس سانحے کی حقیقت سامنے نہیں آتی، گاؤں کے لوگ اپنے پیاروں کی یادوں کے ساتھ زندہ رہنے اور ان کی دعاؤں میں ان کے لئے سکون کی درخواست کرتے رہیں گے۔بڈھال کی فضائیں، جنہیں کبھی پر سکون سمجھا جاتا تھا، اب غم اور المیے کی گواہ ہیں۔ یہاں کے لوگ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ان پراسرار اموات کی گتھی سلجھ جائے گی اور وہ دوبارہ اپنی زندگیوں میں سکون پا سکیں گے۔