ممتازؔ چودھری
گزشتہ ایک دو ما ہ سے آپ الگ الگ میڈیا چینل، اخبارات اور عوام الناس سے سنتے آ رہے ہیں کہ ضلع راجوری کی تحصیل کوٹرنکہ بدھل کے بڈھال میں لگاتار لوگ مرتے جا رہے ہیں۔ جانکاری کے طور پر ایک بات بتا دوں کہ بڈھال اور بدھل دو الگ الگ جگہیں ہیں۔ باجی میاں شفیع صاحب کے مزار اور معروف سیاحتی مقام ناگا تُھبّ یا ناگا ٹاپ کے گردو نواح کے علاقے کو بڈھال کہا جاتا ہے، جہاں پچھلے تقریباً دو مہینوں سے حیرت انگیز طور پر لوگ اپنی جان گنواتے جا رہے ہیں اور ابھی تک 14 لوگ لقمہ ٔاجل اور تین زیرِ علاج ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سبھی لوگ ایک ہی فیملی سے ہیں۔ ہمارے معالج، ڈاکٹر، آفیسر، تحقیقی ایجنسیاں، ضلع انتظامیہ، یو ٹی انتظامیہ مکمل طور پر فیل ہو چکے ہیں، سبھی حیرت میں پڑے ہیں کہ آخر چُپکے سے پورا گاؤں خالی ہونے کا کارن کیا ہے اور یہ سلسلہ رُک کیوں نہیں رہاہے؟
ضلع انتظامیہ راجوری نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی جو یہ جان سکے کہ ان اموات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، تمام جانچ پڑتال کے بعد کچھ معلوم نہیں ہو پایا اور ہم ایک ہی لفظ سنتےوپڑھتے ہیں،’’ اناللہ واناالیہ راجعون ۔‘‘
اب ایک عام آدمی کیا سمجھے گا کہ ان اموات کا کارن کیا ہے؟ ہمیں تو بس ایک گوجری محاورے (مارے آپ تے بہانو تاپ) پر سب کہانی ختم کرنی پڑتی ہے۔ مگر ہمارے تحقیقی اداروں، ڈاکٹروں کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آئے روز ایک ہی پریوار کے اتنے لوگ کیسے اپنی جان گنوا رہے ہیں۔
اگر یہ کوئی چھوا چھوت کی بیماری ہے، تو گاؤں کے باقی لوگ اس سے کیوں متاثر نہیں ہو رہے۔ وہ لوگ جو مرنے والوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ تعزیت کے لئے جاتے ہیں، انہیں کچھ کیوں نہیں ہوتا۔ اگر کوئی وائرس ہے تو ہَوا یا لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے کیوں پھیل نہیں رہی۔ کچھ خبر تو ہو!
یا اگر ہم یہ مانیں کہ خوراک یا پانی میں زہر ملایا گیا ہے تو اُس کی تحقیقات کیوں نہیں ہو رہی ہے،پوسٹ مارٹم سے یہ کیوں نہیں پرکھا جا رہا کہ موت کا کارن کیا ہے۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جس دکان سے اشیاء خوردونوش خریدی جاتی ہے، وہاں کوئی ایسا معاملہ تو نہیں؟
کچھ معلوم نہیں!
’’نمی دانم کجا رفتم‘‘
میری جانکاری کے مطابق وہاں کے سبھی لوگ ایک ہی دکان سے سامان لیتے ہیں، لہٰذا اگر وہاں کچھ ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ سبھی متاثر ہو جاتے۔ یہ بھی ممکن نہیں۔
اگر موسمی بیماریوں کی وجہ سے اس طرح جان جانا شروع ہو جائیں تو یقین مانو دنیا کی آبادی کا گراف دوسرے دن گر کر صفر پر چلا جائے۔ ایسا بھی نہیں۔ اور اگر موسمی بیماریاں زکام، بخار، ملیریا، نمونیا وغیرہ ہوتا ہے تو کیا ایک ہی پریوار کے لئے ہے یہ سب؟
ہر ذمہ دار فرد کو یہ اموات سنجیدگی کے ساتھ لینی چاہیے، سارا خاندان ختم ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ چونکہ یہ حادثات ڈاکٹروں کی سمجھ سے باہر ہیں، اس لئے لوگ اپنے طور پر الگ الگ نظریات نکال رہے ہیں۔
کہیں سے ایسا بھی سننے کو ملا ہے کہ اس خاندان کے کسی فرد نے حضرت میاں شفیع صاحب کے فرزند اور گدی نشین باجی میاں اسلم صاحب سے الیکشن کے دوران کچھ غلط الفاظ کا استعمال کیا، اسی لئے آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کیا میاں اسلم صاحب ان کے حق میں خدا سے دعا نہیں مانگ سکتے؟ یہ بھی ممکن نہیں۔
یہ بھی معلوم کرنا لازمی ہے کہ جن جانوروں کا دودھ ان گھروں میں استعمال ہو رہا ہے، اس جانوروں کے گاس میں کوئی زہر تو نہیں؟ ہمیں ہر اعتبار سے یہ جانکاری معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔
اب اس کی وجوہات جو بھی ہوں، ہم اکیسویں صدی کے لوگ ہیں، جہاں دنیا کے باقی ممالک مریخ پر جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ہیں کہ اندھی باتوں پر یقین کرتے ہیں، اُس پہ یہ کہ اپنے خسارے کا حل بھی نہیں تلاش پا رہے۔ ہمیں ایک انسانی یکجہتی کے تحت آگے آ کے مٹتے ہوئے خاندان کو بچانے کے لئے ایک کارن بننے کی ضرورت ہے۔ ہم میں جو بھی اہل ہے، اسے چاہیے کہ کسی طور پر بھی ان لوگوں کی مدد کرے۔ خدا سے دعا کرے کہ جو بھی گردش ہو، اللہ اس سے عالم انسانیت کے ان حصے داروں کو نکال دے۔
ہم (انسان)تو کچھ نہیں سمجھ پا رہے مگر! اے خدائے لم یزم، ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘