معراج مسکین
راجوری کے بڈھال نامی گائوںمیں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائدعرصہ سےجاری پُر اسرار بیماری کی شکل میں جس ابتلاءنے جس طرح کی لرزہ خیز صوت حال پیدا کردی ہے،اُس سے اب نہ صرف جموں و کشمیر کے ہر خواندہ و ناخواندہ اور غافل و جاہل فرد بلکہ ملک کے ذی حِس انسان کو بھی اس بات کا قائل کر دیا ہے کہ اس پُر اسرا ر ابتلاء کے خاتمہ کا تا حال کوئی مقررہ وقت نہیں۔ایک ہی خاندان کے تین گھرانوں پر قدرت کی یہ پُر اسرا ر مار یا آزمائش مزیدکس کس کو اپنا شکار بنائے گی،اس کی بھی کوئی خبر نہیں۔ کیونکہ اس نامعلوم بیماری کا پتہ لگانے کے لئے ابھی تک جتنی بھی جموں و کشمیر کی یوٹی حکومت اور مرکزی سرکار کی صحت پر مبنی تحقیقی و تشخیصی ٹیمیںمتاثرہ گائوں میں جانچ کے لئے آچکی ہیں،اُنہیں ابھی تک ایسی کوئی ٹھوس یا کارآمد شٔےیا ثبوت نہیں مل پائے ہیں ،جن کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ کسی مخصوص مدت کے اندر یہ ابتلاء دور ہوجائے گی یا اس پُر اسرا ر بیماری کا خاتمہ کیا جاسکے گا۔ اس لئےمحققین کی آرا ءکے مطابق اس پُر اسربیماری کی کوئی بھی علامت ظاہر ہوتے ہی اس گائوں کےلوگوں کے لئے اب طبی ٹیموں کے زیر نگین رہنا لازمی ہوگیا ہےاور ملوث شخص کا پتہ چلتے ہی اُسے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہے ۔تازہ ترین واقعہ میں منگل کو ایک شخص جبکہ آج یعنی بدھ کو مزید تین افراد کو بیماری کی حالت میں پاکر ہسپتال منتقل کیاگیا ہے۔
یہ اٹل حقیقت ہے کہ زمینی اور آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سےشروع ہوتی ہے اور جب بھی کسی قوم،کسی معاشرے ، کسی گائوں یا کسی خاندان پر کوئی ابتلاء نازل ہوجاتی ہےتو آندھی،طوفان ،سیلاب ،زلزلے اور آتش زدگی یاکسی بیماری کی صورت اختیار کرکے اُسے آلام و مصائب میں مبتلا کرتی ہے یاپھر صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتی ہےاور ایسی تباہی اور بُربادی بپا ہوتی ہے ،جس کے اثرات عشروں اور صدیوں تک موجود رہتے ہیں۔جبکہ ایسے مواقع پر بڑے بڑے سورمائوں، سُپر پاورںاور مالداروں کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیںاور وہ اس ا بتلاء میںاپنے آپ کو بے کس اوربے بس پاتے ہیں۔گذشتہ قریباً دو ماہ کے دوران بڈھال گائوں کی تقریباً پوری آبادی کی زندگی کو اس پُر اسرا ر بیماری ،جس کا ابھی تک کوئی نام بھی نہیںدیا جاسکتا ہے،نےتلپٹ کرکے اس گائوںکا نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ گائوں کے زیادہ تر لوگ یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیںکہ اب اس گائوںمیں موجود انسان کو اس پُر اسرا ربیماری سے بچنے یااس سے محفوظ رہنے کے لئے جہاں ایک لمبے عرصے تک احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑے گا، وہیں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اپنا روزمرہ زندگی کا کام کاج بھی محدود اور مشروط دائیروں میں رہ کر کرنا پڑے گا ۔بے شک ایک نظر نہ آنے والی بیماری کی یلغار سے اس گائوں کی حالت تہس نہس ہوکر رہ گئی ہےاور تاحال کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس پُراسرار بیماری پر قابو پانے کی کوئی ویکسین یا کسی اور شکل میں کوئی کارآمد دوائی کیسے تجویز کی جاسکتی ہے۔جبکہ یہ بات عیاں ہے کہ یہ بیماری اب تک13بچوں سمیت 17افراد کی جانیں لے چکی ہےاور عجب بات یہ ہے کہ یہ سبھی افرادایک ہی خاندان کے تین گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ذرئع ابلاغ اور اب تک کی معلومات کے مطابق متاثرہ فرد میں پہلے بخار اور کپکپی ظاہر ہوتی ہے ، پھر قَے یا دست ہوجاتی ہےاور بعد میں بے ہوشی کے کچھ دیربعد متاثرہ شخص یا بچے کی موت ہو جاتی ہے۔چنانچہ ابتدائی ایک ہفتے کے دوران سات افراد کی موت کے بعد ہی جموں کشمیریو ٹی حکومت کی طبی ٹیمیں جانچ پڑتال کے لئےجائے وارادات پر پہنچنا شروع ہوگئی تھیں جبکہ وزیر صحت سکینہ مسعود کی ہدایت پر ماہرین کی ایک تحقیقاتی ٹیم گزشتہ ہفتے تشکیل دی گئی تھی جو پولیس کی نگرانی اور تعاون سے بھی بیماری کے اسباب کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے،اگرچہ متاثرہ خاندانوں اور مرنے والوں کے خون کے نمونے لے کر انھیں چندی گڑھ، نئی دلی اور کولکتہ کی اہم لیبارٹریز میں جانچ کے لیے بھی بھیجا گیا ،تاہم وہاں سے ملنے والی رپورٹس میں بتایا گیا کہ مرنے والے افراد میں کسی طرح کا کوئی مہلک وائرس یا بیکٹیریا نہیں ملاہے۔جبکہ جموں میڈیکل کالج کے ماہرین کو شبہ ہوا کہ یہ اموات ’نیورو ٹاکسنز‘ کی وجہ سے ہوئی ہوں گی،جوانسانی جسم میں سانپ کے زہر یا زہریلے پودوں کے ساتھ رابطے کی وجہ سے داخل ہوتی ہے، تاہم اس بارے میں بھی کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آسکی ہے۔
اس پُر اسرا ربیماری کا پتہ لگانے میں مقامی ماہرین کی ناکامی کے بعد اتوار کووزیر داخلہ اُمیت شاہ نے مختلف وزارتوں کے ساتھ وابستہ ماہرین کی ایک ٹیم راجواری روانہ کی، جو پیر سے مسلسل حالات کا جائزہ لے رہی ہے جبکہ نمونے بھی اکٹھے کئے جارہے ہیں۔اس طرح جموں وکشمیر کی حکومت اور مرکزی سرکارکی طرف سے ہرممکن وہ کوششیں کی گئیں جوکہ اس بیماری کی جانچ و تشخیص کے لئے کی جانی چاہئے تھیں۔یہ اطلاع بھی سامنے آچکی ہے کہ 12,500سے زیادہ نمونوں ،جن میں خون، پلازما، خوراک، پانی اور ماحولیاتی نمونوں کے نمونے شامل ہیں،کی قومی صحت کے اداروں کی جانب سے اموات کی جانچ پڑتال کیلئے جانچ کی گئی ہے لیکن ابھی تک ان اموات کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہےکہ جمعہ کے روز ایک حکم جاری کیا گیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی دیہاتی کنڈی گاؤں کے چشمے (باولی) سے پانی نہ لے ،جب کہ چشمے سے جمع کئے گئے نمونے ’’کچھ کیڑے مار ادویات کےلئےمثبت پائے گئے۔‘‘جبکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جن کنوئوں کو سیل کیا گیا ہے ،اُن کا پانی گائوں والے استعمال میں نہیں لاتے ہیں۔اب تو اس گائوں میں اجتماعی تقریبات پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور دفعہ144نافذ کیاگیا ہے تاکہ بھیڑ بھاڑ سے بچا جاسکے۔
الغرض احتیاطی طور پرجموں و کشمیر کے راجوری ضلع کی تحصیل بدھل میں تین خاندانوں کے باقی ماندہ افراد کو کنڈی گاؤں میں ہی الگ تھلگ پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان کے گھروں کو سیل اور سینیٹائز کر دیا گیا ہے اور یہاں تک کہ ان کو دئیے گئے کھانے کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ ساتھ متذکرہ گائوں میں شادی بیاہ یا تعزیتی تقریبات پر بھی پابندی لگادی گئی ہے ،تاکہ اجتماعی طور پر یہ پُر اسرار بیماری پھیل نہ جائے۔ جموں انتظامیہ کے ایک ذرائع کے مطابق یہ انتظامات بڈھال میں مزید ‘پُراسرار اموات کے کسی بھی امکان کو روکنے کے اقدامات کا حصہ ہیں۔
اس سب کچھ کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر اس ابتلاء کی وجہ کون سی بیماری ہے؟آج تک تین تحقیقاتی مرحلے ہوچکے ہیںجن میں مقامی اور نیشنل لیبارٹریز سے استفادہ لیا گیا لیکن پھر بھی نتائج صفر سامنے آئے ہیں ۔کیا اس طرح جموں وکشمیر انتظامیہ یا مرکزی سرکار اپنا دامن جھاڑ سکتی ہے ۔اگرچہ جموں و کشمیر کی وزیر صحت اور وزیر اعلیٰ اس بات کا بار بار یقین دلا رہے ہیں کہ اس بیماری کا کھوج یا ان سانحات کے محرکات کا پتہ لگانے کے لئے کوئی فروگذاشت نہیں کی جائے گی ،لیکن قریباً دو ماہ گذرنے کو آرہے ہیں اور صورت حال جُوں کی تُوں ہے۔ آخر کچھ نہ کچھ تو ہے جو در پردہ ہے۔حالانکہ اس جدید دور میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔جتنے بھی نمونے جانچ و ٹیسٹ کے لئے لئے گئے ہیں ،کیا سرکاراُن کی جانچ ترقی یافتہ ممالک میں نہیں کروا سکتی ہے جہاں مصنوعی ذہانت سے بھی کام لیا جاتا ہے،تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔یا پھر اس بیماری کو قدرت کی مار قرار دے کر لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ اجائے۔اور ہاں!کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی دوسری مخلوق اس پُر اسرا ر بیماری کو پھیلا رہی ہے جو آج بڈھال کے ایک چھوٹے سے گائوں کے ایک ہی خاندان کو لپیٹ چکی ہے اور کل کسی دوسرے گائوں کے تمام لوگوں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے؟