ڈاکٹر منظور آفاقیؔ
بنی نوع انسان کوجو کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ بے شمار الوہی صفات کی بدولت تمام مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے۔انسانی زندگی اس تصور کا نام ہے ،جس میں خالق ِلم یزل نے جسد اور روح کو ایک ہی قالب میں ڈھال کو فعال اور متحرک بنادیا ہے۔روح اور جسم زندگی کے اسی لامتناہی سلسلے کا نام ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔انسان کو دنیاوی زندگی میں اگرچہ بہت سارے چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے ۔لیکن زندگی کی ایک حقیقت بنی نوع انسان کو موت کے آغوش میں ضرور بیٹھنا ہے۔روحِ آدم کوزندگی کے اس سفر میں چین وسکون کی زندگی خال خال ہی میسر ہوتی ہے۔بلکہ زندگی کی اس صحرا نشینی میں دکھ ،درد اورپریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔حالانکہ ایک انسان کی زندگی تب جہنم کی مانند بن جاتی ہے جب اسے زندگی میں قدرتی آفت ،بے وجہ موت اور دیگر مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔اسی دُکھ درد کے ماحول میں دنیائی زندگی آج کل کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں ہے ۔کیونکہ موجودہ دور انتشار اور درد وکرب کا زمانہ ہے اور آج کی زندگی انہی دُکھ دردکا سامان فراہم کر رہی ہے۔آج کل بنی نوع انسان کو چین وسکون کسی بھی قیمت پر حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔بلکہ دنیا ایک نئے بحران اور تباہی کی جانب اپنا سفرجاری و ساری رکھی ہوئی ہے۔جہاں دنیا کے مختلف ممالک میں جنگی حالات ،بے گناہ قتل عام ،آگ جیسی وارداتیں اور معصوم لوگوں کا خون ناحق ببانگِ دہل کیا جاتا ہے۔
یہاں میں اس بات کی طرف اشارہ کرناضروری سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں بنی آدم کو کس کی نظر لگ گئی کہ اسے کسی بھی موڑ پر سکونِ قلب حاصل نہیں ہوپاتا ہے۔ بلکہ اس کے عوض اسے روز کچھ نئے معاملوں سے سروکارپڑتا ہے۔انسانی زندگی کاخاتمہ کبھی کورونا وائرس کی مہلک بیماری سے ہوتا ہے، تو کبھی دل کا اچانک دورہ پڑنے سے پیش آتاہے۔یہاںاس بات کو سمجھنے سے میں قاصر رہا ہوں کہ جموں وکشمیر میں راجوری کے بڈھال گاؤںمیں بغیر کسی بیماری کے معصوم لوگوں کی جان کیسے چلی جاتی ہے۔آج کل سوشل میڈیا پر یہ خبر گشت کر رہی ہے کہ راجوری کے ایک دوردرازبڈھال گاوں میں تین کنبوں میں چالیس دن کے اندر 16 افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔اس کے پیچھے کیا راز ہے ،اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ذرائع وابلاغ کے مطابق ان معصوم کنبوں کی روزانہ زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی لیکن سابقہ سال میں 7دسمبر کے دن اچانک بیمار پڑنے کی وجہ سے جب انھیںراجوری کے ضلع ہسپتال میں منتقل کیا گیا تو یکے بعد دیگرے آج تک 16 افراد کی قیمتی زندگی چلی گئی ہے۔اس بات کو ہم صرف لفظوں اور احساسات کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں لیکن اصل درد وہ ماں اور باپ محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے آج تک کل 16 افراد کی نعشوں کا تجہیز وتکفین کر لیا ہے۔بلکہ اپنے گھروں کے اندر ناگہانی موت کو رقص کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان اموات کے تئیں کسی سازش یا کسی مہلک بیماری کا سبب ہے،اس کے متعلق ابھی تک کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔اگرچہ پہلے پہل اس بات کو نظر انداز کردیا گیا تھا لیکن سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ تنقید ہونے پر حکومت نے سنگین ایکشن لینے کی کوشش کی ہے۔اب اس معاملے پر پولیس اور دیگر انتظامیہ تیزی سے تحقیقات کرنے میں کوشاں نظر آرہی ہے۔ان معصوم لوگوں کی جان کیسے چلی اب تک یہ سب سے بڑا مسلہ ہے۔مقامی لوگوں سے بھی پتہ چلا ہے کہ اگر کوئی وائرس یا بیماری ہوتی توگاوں کے دیگر کنبوں کو بھی ایسے مسائل سے سابقہ ضرور کرنا پڑتا۔آخر ایک ہی خاندان کے تین کنبوں کو ان اموات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔اگرچہ محکمہ صحت نے کھانے پینے اور دیگر خوردنوش کی چیزوں کے نمونے حاصل کرکے انھیںجدید ٹیکنالوجی اورمشینوں کے ذریعے جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ لیکن سب کچھ نارمل ہونے کے باوجود بھی ان اموات کی تعدادمسلسل بڑھ رہی ہے۔اس بات کو سمجھنے سے عقل بھی حیران ہو جاتی ہے کہ آخر اس کے پیچھے کیا راز ہے ،اس بات کا انکشاف کرنا فی الحال عقل سے پرے کی چیز ہے۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس گاؤں کے لوگ اب باہر جانے اور کچھ کھانے پینے میں ڈر کا ماحول محسوس کررہے ہیں۔ان گاؤں والوں کی حالت آج کس نہج پر چل رہی ہے جس کا بیان کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس بات کو کہنے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ ان معصوم لوگوں کی جان کی پروا کیے بغیر نام نہاد سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر طعنے کس کر اس دلدوز واقع پر سیاست کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ بلکہ ہونا یوں چاہیے کہ ان معصوموں کی زندگی کو بچانے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیےاور ان کے دکھ درد کو دور کرنے کے لیے ان کا مداوا بننا چاہیے۔اگرچہ آج کل ان معصوموں کی درد آگین زندگی کو صحیح سمت پر لانے کی کوششیں کی جانے چاہیے، لیکن اس کے عوض لوگ ایک دوسرے کو ملامت کا شکار بناتے ہیں۔ان معصوموں کے درد نے اگر کسی کے دل میں گھر کر لیا ہے تو وہ ان کے ماں باپ ہیں۔ باقی سارے لوگ اپنے نام کی تشہیر کرنے میں ہی مصروف عمل نظر آرہے ہیں۔
جموں وکشمیر کی حکومت نے کل اس بات کی سنگین نوٹس لی اور اب پورے گاؤں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ متاثرہ کنبوں کواب محفوظ مقامات پرلے جاکر انھیں سرکاری طور طریقے سے نظر گزر کی جاتی ہے۔کاش حکومت پہلے ہی اس بات کی طرف دھیان دیتی تو شاید ان اموات میں کمی ضرور ہوتی۔خیر ’’دیر آید درست آید‘‘حکومت کی تعریف کرنی چاہیے۔حکومت اب بات کا گہرائی سے مطالعہ کر رہی ہے اور وہ سارے راز ظاہر کرنے میں محنت شاقہ کر رہی ہے کہ ان اموات کے پیچھے کونسا راز مخفی ہے۔اسے ظاہر کرنے کی پولیس ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔اب خدانخواستہ اگر اس معاملے میں کسی درندہ صفت شخص کی سازش پائی گئی تو اسے سلاخوں کے پیچھے ہمیشہ ہمیشہ کے ڈال دینا چاہیے۔بلکہ جو بھی براہ راست یابالواسطہ ایسے سنگین جرائم میں ملوث پایا گیا، انھیں کسی بھی حال میں بخشا نہیں جاناچاہیے۔بلکہ آیندہ ایسے سنگین جرائم کو انجام دینے والوں پر حکومت کی طرف سے قدغن ہونی چاہیے اور انھیں عبرت ناک سزا ہونی چاہیے۔آج وہ معصوم لوگ کس کے سامنے اپنی فریاد رسائی کرے ،کیونکہ جس بھی معصوم کی جان چلی جاتی ہے وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں ہے۔لہٰذا حکومت اور وہاں کی عوام کو ادبا ًالتماس کی جاتی ہے کہ براہ کرم م ان متاثرہ کنبوںکی درد کو سمجھا جاسکے۔حکومت کومتاثرہ کنبوں کی حالت زار کو مد نظررکھتے ہوئے انھیں ہر طرح کا امدادفراہم کرناچاہیے۔حالانکہ ایک جان کی تلافی کس بھی چیز سے نہیں ہوسکتی، لیکن وقتی طور پر تھوڑی سی راحت تو مل سکتی ہے۔بہرحال ان معصوں کی زندگی پر کافی ملال اور رنج ہے لیکن بندۂ ناچیز قدرت کے سامنے لاچار اور بے بس ہے۔ زندگی خالقِ لم یزل کی دی ہوئی ایک بڑی نعمت ہے اور اس زندگی کی قدر ہمیںہمیشہ کرنی چاہیے۔ راجوری میں جو دلدوز واقعات پیش آتے رہتے ہیں ،ان سے انسان اندر ہی اندر مایوسی اور بے چینی سے ٹوٹ جاتاہے۔ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان مرحومین کی مغفرت فرمائیں اور آیندہ ایسے دلدوز واقعات سے ہمیں دور رکھے۔تاکہ ہم اپنی زندگی خوشی اور مسرت کے ساتھ گزارنے میں کامیاب ہو جائیں۔
رابطہ۔6005903959
[email protected]