غلام حسن ڈار ۔رفیع آباد
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جس طرح سورج کے بغیر دن، تاروں کے بغیر رات اورپھولوں کے بغیر گلستان بے معنی ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح اولاد کے بغیر میاں بیوی کی زندگی بے معنی ہوتی ہے۔ لیکن جن جوڑوں کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، ان کی خوش بختی پر اولاد سے محروم لوگ رشک کرتے ہیں۔ تاہم دیکھا جائے تو بچے حیوانوں اور پرندوں کے بھی ہوتے ہیں لیکن قدرت نے انسانوں کے اندر شخصی تعمیراور ترقی کے علاوہ معاشرتی و قومی ترقی کا جذبہ پیدا کیا ہے،اور اسی کے باوصف اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل افراد کے ذریعے دنیا میں معجزاتی ترقی کا وجود ممکن ہو پایا۔ اس تناظر میں اولاد کو نَراپالنا ہی والدین کو ان کی ذمہ د اریوں سے عہدہ برآنہیں کرسکتا بلکہ ان کی جسمانی نشونما کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشونما اور بہتر تعلیم و تربیت سے ان کو آراستہ کرنا، والدین اولاد کے تئیں اپنے فرائض کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
ادھر پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی سے والدین میں ایک عجیب سا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مطلب یہ کہ آجکل کے والدین اگلے والدین کے مقابلے میں اپنی اولاد کے تئیں بے انتہا محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ والدین ہر زمانے میں اپنی اولاد کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن ہمارے دور کے والدین اپنے بچوں کی جسمانی صحت، ذہنی صحت اور مستقبل (کیرئیر) کے بارے میں اس قدر فکر مند ہوتے ہیں کہ وہ ذاتی ضرورتوں اور خواہشوں کو سرے سے ہی نظر انداز کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کے امتحانات کی مدت کے دوران اس قدر پریشان، فکر مند یا راتوں کی نیند سے محروم خود بچے نہیں ہوتے جس قدر ان کے والدین ہوتے ہیں۔ ایسا رجحان نہ صرف ہمارے یہاں ہے بلکہ دنیا میں کم و بیش ہر جگہ نظر آتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ رجحان دور جدید کے نئے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ دنیا کا منظر نامہ یکسر بدل گیا ہے۔ ہر طرف مقابلہ آرائی، مسابقت اور اَنّا ولا غیری کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں والدین کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی Parenting کے اصولوں کو بھی مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی اولاد سے اپنی محبت کے اظہار میں حد سے تجاوز کرکے انہی بچوں کے لیے سم قاتل نہ بن جائیں۔ پھر نہ بچوں کی جسمانی صحت، نہ ذہنی صحت اور نہ ہی ان کا مستقبل (کیرئیر) ان کے والدین اور قوم کی خواہشوں اور امیدوں کے مطابق ہوگا۔
اگر چہ بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کی خاطر بہتر سے بہترین کے متمنی ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ہمارا غلط طرز عمل بُرے نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کچھ ایسی علامات ہیں ،جنہیں ہم معمولی سمجھ کر اپنے بچوں کو مسائل و مشکلات میں ڈال لیتے ہیں ۔ان علامات کو جلدی پہچان کر ان سے بچوں پر ہونے والے نقصانات کو ٹالا جاسکتا ہے۔ یہاں ان علامات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے:
(۱)بچوں پر ہر وقت چِلانا: اگر آپ بچوں پر مسلسل چلا رہے ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اینزائٹی (Anxiety) کے شکار ہوجائیں گے ،یا یکایک شدید غصہ اُن میں جذباتی اشتعال پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بُری طرح سے متاثر ہوجاتی ہے۔ والدین کے لیے بچوں پر چِلانا انہیں سخت سزا دینے یعنی انہیں مارنے کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا بچوں کے ساتھ برتائو کرتے وقت جذبات کو قابو میں رکھنا ضروری ہے۔
(۲) بچوں کو سخت و سُست سنانا: بچوں کو شدید قسم کی دھمکیاں دینا، انہیں عاجز یا بے بس کر دینا، نام نکالنا اور ایسے الفاظ و رویوں کا استعمال و اختیار کرنا کہ وہ شش و پنج میں پڑ کر مایوس ہوجائیں ،تو سمجھ جائیں کہ آپ بچوں پر ظلم کررہے ہیں جس کے نتیجے میں بچوں پر منفی اثرات مرتب ہونا یقینی ہے۔
(۳)خود مرکوزیت: آپ کے بچوں کی ضروریات کا آپ کی ضرورتوں پر ترجیح ہونا لازمی ہے، لیکن معاملہ اگر اس کے برعکس ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ مثلاً اگر آپ کے بچے کو آپ کی توجہ کی ضرورت ہے اور آپ کچھ دیر کے لئے اپنا فون بند رکھنے کی زحمت نہیں کرتے اور اسے جذباتی سہارا بہم نہیں پہنچاتے تو آپ غیر ارادی طور پر اپنے بچے کو نظر انداز کررہے ہیں اور بچہ اس طرح کے رویہ کو دل و دماغ پر لے کر اسے بُری طرح سے محسوس کرتا ہے۔ پھر اس کے منفی اثرات کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔
(۴) بچوں پر نقطہ چینی: اگر آپ مسلسل اپنے بچوں پر نقطہ چینی کرتے اور نشانہ سادھتے ہیں۔ ہر وقت انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، بُرا بھلا کہہ کر ان کو خاموش کرتے ہیں تو یہ ایک مسئلہ ہے ۔ہمارے بچے ہماری حوصلہ افزائی اور تعریف کے متمنی ہوتے ہیں نہ کہ ہر وقت کی سرزنش اور جھڑکی سننے کے۔ لہٰذا ان کی روح کو زخمی نہ کریں۔
(۵)بچوں پر جاسوسی کرنا: بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ معصومیت میں کسی بُرائی میں مبتلا نہ ہوجائیں ،تاہم ہر وقت انہیں شک کی نظروں سے دیکھنا اور ان کے ہر کام پر جاسوسی کرنا، انہیں ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔ ماہرین نے اس کو Halicopter Parenting کا نام دیا ہے۔ اس سے بچوں میں مایوسی کے عناصر بڑھ جاتے ہیںاور وہ والدین سے اپنی باتیں چھپا کر بُرائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(۶)بچوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دینا: بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو نما کے لئے انہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے لیے کچھ پابندیاں اور حدیں مقرر کرنا ضروری ہے نہ کہ وہ اپنی مرضی کے مالک بن جائیں، جو کہ انہیں بُری صحبت یا لت کا راستہ بھی دکھا سکتی ہے جیسے نشہ کرنا، جُوا کھیلنا وغیرہ۔
(۷)اگر آپ والدین سے زیادہ ان کے دوست ہیں؟ : آپ اپنے بچوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں۔ اگر چہ ان کا دوست بن کر ان کو اچھائیوں کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی طور پر آپ والد یا والدہ ہے۔ آپ اپنے بنیادی رول اور ذمہ داری کو یکسر نظر انداز کر کے انہیں غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرسکتے ہیں، لہٰذا اپنی بنیادی ذمہ داری کو سمجھنا اور اسی کے مطابق اپنے رول میں لچک پیدا کرکے ان کے لیے خود کو مثالی والدین ثابت کرنا ناگزیر ہے۔ اگر طرزِ عمل اس کے برعکس اختیار کیا گیا تو آپ کی Parenting زہریلی ہے۔لہٰذا بچوں کے ساتھ برتائو کرتے وقت احتیاط برتے۔
(رابطہ ۔9149609273)
[email protected]>