لمحہ ٔ فِکریہ
سبزار احمد بٹ
صبر اور برداشت ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی گرنے نہیں دیتی بلکہ اسے بحفاظت منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ جس شخص کے اندر صبر و تحمل ہوتا ہے وہ اپنے خلاف ہونے والے فیصلے بھی تسلیم کر لیتا ہے، ظلم سہتا ہے مگر فیصلہ اللہ کے سپرد کر دیتا ہے۔ لیکن جب انسان کے اندر سے برداشت کا مادہ ختم ہو جائے تو وہ ہر فیصلہ اپنے حق میں چاہتا ہے اور نتیجتاً انتقام کی راہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے افراد کی کثرت سے پورا معاشرہ انتشار و بے امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہاں من مانی، قوانین کی خلاف ورزی، انتقام گیری اور بزرگوں و اساتذہ سے بدسلوکی عام ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے جموں و کشمیر کی نئی نسل بھی اس المیے کی لپیٹ میں آتی جا رہی ہے۔ آئے دن دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ والد کی معمولی ڈانٹ پر بیٹا خودکشی کر لیتا ہے، ماں کی سختی پر بیٹی اپنی جان دے دیتی ہے، بعض اوقات بیٹے والدین پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بعض اوقات والدین پر تشدد کرتے ہیں۔ اساتذہ اگر طلبہ کو سمجھائیں تو شاگرد بدسلوکی پر اتر آتے ہیں، یہاں تک کہ مارپیٹ کے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ بزرگوں کی نصیحت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ حال ہی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا کہ ایک بہن نے معمولی جھگڑے پر اپنی ہی بہن کا قتل کر دیا۔ یہ وہی وادی ہے جہاں بڑوں کا احترام روایت تھی، جہاں بلند آواز میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج اسی وادی میں قتل و غارت اور رشتوں کی پامالی ہو رہی ہے۔ بزرگوں کی عزت سرِعام خاک میں ملائی جا رہی ہے اور ہم سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات ہیں، اور ان محرکات کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ سب سے پہلے والدین کو اپنی ذمہ داری تسلیم کرنا ہوگی۔ آج کل والدین بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، چاہے وہ خواہش جائز ہو یا ناجائز۔ ڈانٹ ڈپٹ، جو کہ تربیت کا اہم حصہ تھی، ختم کر دی گئی ہے۔ حالانکہ بچپن کی غلطیاں موقع پر ہی درست کر دی جائیں تو بچہ آئندہ ان کا اعادہ نہیں کرتا۔
ہمارے معاشرتی رویے بھی اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں۔ آج استاد کے لیے اپنے شاگرد کو سمجھانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بچوں پر ہاتھ اٹھانے پر قانونی پابندی کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے استاد کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہوں۔ معمولی معمولی باتوں پر ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی ہیں اور استاد کی عزت اچھالی جاتی ہے۔ اگر کوئی استاد کسی شاگرد سے پانی منگوا لے یا اسکول کے کسی کام میں مدد لے تو ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے، حالانکہ یہی استاد اسکول کی صفائی کرتے ہیں، بچوں کو نہلاتے ہیں، ناخن تراشتے ہیں اور ہر ممکن خدمت انجام دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر کبھی شاگرد بھی استاد کا ہاتھ بٹا دے تو اس میں برائی نہیں بلکہ خیر ہی ہے۔ لیکن افسوس! ہمارا معاشرہ اس بات کو سمجھنے کے بجائے استاد کی تذلیل کرنے میں مصروف ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہر بزرگ کو بچوں کو سمجھانے اور ڈانٹنے کا حق حاصل تھا۔ یوں بچوں کی بہترین تربیت ہوتی تھی۔ آج والدین بھی اپنے بچوں پر اختیار کھو بیٹھے ہیں اور اساتذہ بھی۔ نوبت یہ ہے کہ بچے خود اپنے اساتذہ کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ حال ہی میں اتراکھنڈ میں ایک واقعہ پیش آیا ہے جہاں نویں جماعت کے ایک طالب علم کو استاد نے تھپڑ مارا تو اگلے دن بچے نے استاد کو گولی مار دی۔یہ واقع ہم سب کے لیے چشم کشا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے بچوں میں اتنی جرات کہاں سے آئی؟ اور وہ کس راستے پر چل نکلے ہیں؟
وجہ صاف ہے کہ بچوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ والدین نے اپنا رویہ یہ بنا لیا ہے کہ بچے جو کہیں گے وہی ہوگا۔ پہلے زمانے میں والدین بچوں کو حکم دیتے تھے اور بچے تسلیم کرتے تھے، لیکن آج بچے والدین پر حکم چلاتے ہیں اور والدین ان کے آگے جھک جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح کا معاشرہ تعمیر کر رہے ہیں؟ کیا ہم ایسے معاشرے کے خواہاں ہیں جہاں نہ کسی کی بات سنی جائے، نہ کسی پر صبر کیا جائے؟ اگر ایسا ہوا تو ہمارا معاشرہ جہنم بن جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ والدین اپنے بچوں کو غلطیوں پر ڈانٹیں، انہیں اساتذہ کی بے ادبی کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں۔ اگر بچے اسکول میں اساتذہ کے کسی کام میں ہاتھ بٹائیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کی کوئی بھی خواہش پوری کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ وہ خواہش جائز ہے یا نہیں۔ اساتذہ اگر بچوں کو ڈانٹیں تو بچوں کو سمجھایا جائے کہ یہ ڈانٹ ان کی بھلائی کے لیے ہے۔ والدین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اساتذہ فرشتے نہیں، وہ بھی انسان ہیں اور ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ ذاتی رنجش یا چھوٹی باتوں پر ان کی تذلیل کرنے سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے۔
یہ بات بچوں کو ذہن نشین کرانی چاہیے کہ والدین اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ ان کے لیے نعمت ہے۔ وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم بچوں میں برداشت کا مادہ پیدا کریں، کیونکہ ہمیں اپنے بچوں کو صرف امتحان کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے نشیب و فراز کے لیے تیار کرنا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اگر بچہ امتحان میں ناکام ہو جائے تو وہ اپنی جان لے لیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ناکامی برداشت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، کیونکہ ہم نے اسے برداشت کرنا سکھایا ہی نہیں۔
[email protected]>