مولانا محمد نعمان رضا
تربیت ایک احسن عمل ہے مگر اس سے پہلے ضرورت ہوتی ہے نئی نسل کو منفی محرکات اور منفی ماحول سے بچانے کی۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک شخص ہے جو اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے مگر اس سے پہلے اُس کیلئے ضروری ہوگا کہ انہیں جھوٹ کے ماحول سے بچائے۔ اس کیلئے اُس شخص پر لازم ہوگا کہ بچوں کے سامنے جھوٹ نہ بولے، خواہ مجبوراً ہی بولنے کی نوبت آئے، نہ ہی کسی اور کو اس کی اجازت دے کیونکہ بچے گھر اور اطراف کے ماحول سے جتنا سیکھتے ہیں اُتنا کہیں اور سے نہیں سیکھتے۔
چٹ پٹی مرچ مصالحے والی چیزوں سے نظام بگڑ جائے گا، بدتمیزی، لڑائی، بداخلاقی جیسی معاشرتی برائی جنم لے گی۔ انہی چیزوں کے دلدادہ آخر بے قرار بچے ناسمجھ ہیں، ہم خود سمجھدار ہیں، ہم خود ہی ان کو زہریلا بناتے ہیں، پھر شکوہ کرتے ہیں۔ اس نفسانفسی اور مادہ پرستی کے دور میں ہر طرف برائیاں اور جرائم جنم لے رہے ہیں، معاشرتی اور اخلاقی برائیاں وبا کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔اب صرف موجودہ ماحول ہی کیا بچوں پر آب و ہوا اور مٹی و علاقہ کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں نیز خورد و نوش اور ستر و لباس پر بھی علاقہ اور آب و ہوا کے آثار نظر آتے ہیں۔
دور حاضر میں اچھی تربیت اور اس سے پہلے محفوظ ماحول بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بچوں کو محفوظ ماحول اس لئے میسر نہیں ہے کہ سماج میں ہر طرف جھوٹ بکھرا ہوا ہے، بعض لوگ سچ بولنے کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہونے کے باوجود عادتاً جھوٹ بولتے ہیں، یہی نہیں سماج میں غیبت ہے، مکر و فریب ہے، انتشار ہے، جھگڑا فساد ہے، ایک دوسرے کی عادت بن چکی ہے، ایک دوسرے کو کمتر سمجھنے کی ذہنیت ہے، دوسروں پر مادی سبقت لے جانے کا عام رجحان ہے، دکھاوا ہے، رشتوں کی ناقدری ہے، بزرگوں کے ادب کا فقدان ہے اور ایسے ہی کئی دوسرے رجحانات ہیں، جو اب اس حد تک غالب آچکے ہیں کہ سچ کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور اخلاص کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ شرافت، پاکیزگی، دیانت، امانت، نرمی، خوشی، خلقی، ادب و احترام، سچائی اپنانے پر کوئی دشمن نہیں روک رہا۔ اسی طرح بچوں کے ریڈی میڈ تصویروں والے لباس بے حیائی بے پردگی فیشن عیش پرستی اپنے ہی ماحول کی پیداوار ہیں۔یہی کیا کم ہے کہ اب بچوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے بچانا بھی ہے۔ یہ آلہ ایسا سحر انگیز ہے کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو رحمت ہے، غلط استعمال کیا جائے تو زحمت ہی زحمت ہے۔ بچوں کو موبائل کا تحفہ دینے والے والدین چوبیس گھنٹے تو اُن کے پاس بیٹھ کر اُن کی نگرانی نہیں کر سکتے۔ جو بچے آٹھویں، نویں دسویں میں ہوتے ہیں اُن کی پڑھائی لکھائی سے متعلق بہت سا مواد انہیں موبائل پر ہی ملتا ہے۔ اب ایسے حالات میں نہ تو بچوں کو موبائل سے روکا جا سکتا ہے اور نہ موبائل میں جھونکا جا سکتا ہے۔ یہ عجب حالات ہے جس نے ذمہ دار والدین کو مجبور محض بنادیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بچوں کیلئے منفی ماحول کے دروازے اس طرح بند کر دے کہ کوئی ایک بیرونی جھونکا بھی گھر میں داخل نہ ہو تب بھی وہ انہیں موبائل کے ”راز دارانہ جھونکوں” سے کیسے بچا سکے گا جو اندر ہی اندر چلتے ہیں اور دکھائی نہیں دیتے؟ بچے ان جھونکوں کا کیا، کیسا اور کتنا اثر قبول کر رہے ہیں یہ بھی ظاہر نہیں ہو پاتا، اسی لئے ہم نے کہا کہ اچھی تربیت بہت اچھا عمل ہے مگر یہ بھی کارگر ہو گا جب محفوظ ماحول بچوں کو فراہم کیا جائے۔
ظاہر ہے کہ موجودہ دور میں پہلا کام اتنا مشکل نہیں ہے کہ جتنا کہ دوسرا کام ہے مگر یہی والدین کی آزمائش بھی ہے۔ بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے انہیں نہایت کم عمری سے محفوظ ماحول فراہم کرنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے جس پر سے والدین کو گزرنا ہے اور صرف گزرنا ہی نہیں ہے بلکہ سلامتی کے ساتھ گزرنا ہے تا کہ بچے پڑھیں ،لکھیں ،سیکھیں، تعلیم اور تربیت کی مختلف منازل طے کریں اور محفوظ مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں ۔محفوظ ماحول کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ انہیں جھوٹ، فتنہ، غیبت، مکر و فریب اور تشدد کے ماحول سے جس حد تک بچایا جا سکتا ہو، بچایا جائے اور بار بار ضروری تلقین کی جائے۔ اگر والدین اچھے اور مہنگے اسکول میں داخل کر کے یہ سمجھ لیں کہ اُن کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو گیا ہے تو یہ خود فریبی ہوگی کیونکہ محفوظ مستقبل مشروط ہے محفوظ ماحول سے۔ دور حاضر میں والدین کی ذمہ داری کافی بڑھ گئی ہے، کاش وہ اس کا ادراک کریں۔