قومی اوسط سے قدرے کم ، بڑھتا رجحان خطرناک
بلال فرقانی
سرینگر// ملک بھر میں آج یومِ اطفال منایا جا رہا ہے، اسی دوران جموں و کشمیر سے سامنے آئے تازہ اعداد و شمار بچوں کے خلاف بڑھتے جرائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ اگرچہ ریاست میں بچوں کے خلاف جرائم کی شرح قومی اوسط سے کم ہے، تاہم پچھلے چند برسوں میں ان واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سال 2023 میں بچوں کے خلاف 910 مقدمات درج کیے گئے، جو کہ 2021 میں 845، 2020 میں 606 اور 2019 میں 470 تھے۔ اس طرح جموں و کشمیر میں بچوں کے خلاف جرائم کی شرح تقریباً 18.5 فی ایک لاکھ آبادی رہی، جو کہ قومی اوسط 39.9 فی ایک لاکھ سے خاصی کم ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ رجحان سماجی اور قانونی لحاظ سے فکرمندی کا باعث ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ان جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بچوں کے جنسی استحصال سے تحفظ کے قانون کے نفاذ اور بہتر نگرانی و رپورٹنگ نظام کی بدولت رپورٹنگ میں اضافہ ہونا ہے۔ عام طور پر رپورٹ ہونے والے جرائم میں اغوا، کم عمر بچوں کی گمشدگی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔ 2021 میں، 294 مقدمات پی او سی ایس او ایکٹ کے تحت جبکہ 478 بچوں کے اغوا سے متعلق درج کیے گئے تھے۔پولیس حکام کے مطابق، یہ اضافہ صرف جرائم میں نہیں بلکہ عوامی آگاہی اور اعتماد میں بھی اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ ایک پولیس افسر نے کہا کہ زیادہ مقدمات کا اندراج اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اب خوف کے بجائے انصاف کی راہ اپنا رہے ہیں اور ایسے معاملات کو رپورٹ کر رہے ہیں جنہیں پہلے چھپایا جاتا تھا۔دوسری جانب، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق کم عمر افراد کی جانب سے کیے گئے قابل دست اندازی جرائم میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2021 میں 323 قابلِ دست اندازی مقدمات کم عمر ملزمان کے خلاف درج کیے گئے، جو 2020 میں 171 اور 2019 میں 299 تھے۔ ایک تحقیقی مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ کشمیر میں زیادہ ترنابالغ مجرم نچلے سماجی و معاشی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اکثریت دیہی علاقوں سے ہے، جہاں تعلیمی و نفسیاتی سہولیات کی کمی اور خاندانی مسائل ان کے رویوں پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔ ایڈوکیٹ الطاف حسین کے مطابق یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غربت، تعلیم کی کمی اور سماجی نظراندازی جیسے عوامل بچوں اور نوجوانوں کو جرائم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ جموں و کشمیر میں بچوں کے خلاف مجموعی جرائم کی شرح نسبتاً کم ہے، لیکن اس میں مسلسل اضافہ باعثِ تشویش ہے۔سماجی کارکنوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو مضبوط بنائے، اسکولوں میں نفسیاتی مشاورت کو فروغ دے اور پی او سی ایس او اور اغوا کے مقدمات کے فوری فیصلے کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام یقینی بنائے۔ ماہر سماجیات پروفیسر میر ظفرنے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کی حفاظت، تعلیم اور فلاح و بہبود کو ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔