ہارون ابن رشید۔ہندوارہ
ماں بچوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لیے جو تکالیف اور مصائب برداشت کرتی ہے، اسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو یہ ماں اس کی پرورش کا ہر انتظام کرتی ہے۔ ایک ماں ہی معاشرے کو نیک اور صالح بچہ دے سکتی ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شادی کے لیے نیک اور پرہیزگار عورت کا انتخاب کرے، یہ بچے کا حق ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو تو ان ایام میں اسے حرام چیزوں سے دور رہنا چاہیے اور حرام کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ یہ حکم اس کی ساری زندگی کے لیے ہے۔ اس کے بعد جب یہ بچہ دنیا میں آئے تو اس وقت بھی اسے حرام چیزیں نہ دینا۔تاریخ میں ایک مثال موجود ہے کہ علامہ اقبال کی والدہ کے بارے میں علامہ اقبال کے والد ایک ایسا پیشہ کرتے تھے جو سود سے جڑا ہوا تھا۔ اور علامہ اقبال کی والدہ کو وہ کام بالکل پسند نہیں تھا۔ چنانچہ جب علامہ اقبال پیدا ہوئے تو علامہ اقبال کی والدہ نے اپنے بیٹے کو دودھ نہیں پلایا۔ تو علامہ اقبال کی والدہ نے کیا کیا؟ علامہ اقبال کی والدہ جنہوں نے اپنا زیور بیچ کر ایک بکری خریدی اور اس بکری کے دودھ سے علامہ اقبال کی پرورش کی۔پھر اللہ نے علامہ اقبال جیسی ہستی پیدا کی۔ اے پرندے، موت اس رزق کے ساتھ اچھی ہے، ’’جس رزق سے اڑان بھرے‘‘۔ اب جب یہ بچے دو یا تین سال کے ہوچکے ہیں، خاص کر وہ لوگ جو بدقسمتی سے آج چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون دے دیے گئے ہیں۔جو کہ ایک غلط طریقہ ہے جس کا بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ نتیجتاً بچے چھوٹی عمر میں ہی اسمارٹ فونز کے عادی ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو اسمارٹ فونز سے دور رکھنے میں ماں کا کردار اہم ہے۔ ماں کی ذمہ داری بھی ہے کہ بچہ جب بولنا شروع کرے تو سب سے پہلے اس کی زبان پر اسلام کا لفظ آتا ہے۔اسے شروع سے ہی اسلام کی بنیادی تعلیمات، اسلامی آداب، اسلامی اخلاق سکھائے جائیں۔ عملی میدان میں والدین جو کچھ کریں گے وہی عمل کاپی پیسٹ ہوگا۔ پس جب والدین خود نماز پڑھ رہے ہوں، سچ بول رہے ہوں، دیانت دار ہوں، تو اس کے اثرات بچوں پر مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر جب ماں نماز پڑھ رہی ہوتی ہے۔ اس لیے بچے کو اپنے سامنے رکھیں، جب وہ مسلسل اپنی ماں کو کچھ کرتے ہوئے دیکھے گا تو یہ بات اس کے ذہن میں رہے گی۔ بچے کو شروع سے ہی بہادر، دیانتدار، متقی، پرہیزگار بنانا چاہیے۔سکول کے لیے نکلیں اس لیے صاف ستھرا رہنے کی تربیت بچپن سے ہی ہونی چاہیے۔
شروع سے ہی بچے کو خود سے کام کرنے کی عادت سکھائی جائے۔ گھر کے کچھ خاص اصول و ضوابط بنائے جائیں جن پر گھر کے ہر فرد کو عمل کرنا چاہیے۔ جیسے وقت پر نماز ادا کرنا، سونے اور جاگنے کے اوقات، کھانے کے اوقات، گھر کے چھوٹے کاموں میں بزرگوں کی مدد کرنا، بازار کے تمام جنک فوڈز سے پرہیز کرنا وغیرہ، اس سے بچوں میں نظم و ضبط آئے گا اور وہ زندگی میں ہمہ وقت متحرک رہیں گے۔ یہ چیزیں ماں سے ہی مل سکتی ہیں، ماں اپنے بچے کو جو چاہے بنا سکتی ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا۔ایک ماں بچے کے کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
بچے پر فرض ہے کہ وہ نماز پڑھے، قرآنی تعلیمات پر عمل کرے اور ماں سے تقویٰ سیکھے۔ بچے والدین کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اپنے بچوں کی تربیت کرے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں نوجوان اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں۔ ماؤں کو ہر وقت اپنے بچوں پر نظر رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اسکولوں سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ وہاں تربیت پائیں گے۔ ہمارے تعلیمی ادارے وہ نہیں جو پہلے تھے۔ اس صورت میں، ہمیں اپنے بچوں کو اخلاق سکھانا ہے، گھر میں کیسے رہنا ہے۔ یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب بچوں کے والدین خصوصاً ماں اس کے لیے محنت کرے اور گھرمیںہی تربیت کا نظام پیدا کرے۔تبھی اس بگڑے ہوئے ماحول میں بچوں کو نیکی کی راہ پر لایاجا سکتا ہے۔
امت کی عظیم ماں کی مثال حضرت ام سلمہؓ، جو حضرت انس ؓ کی والدہ تھیں۔ انسؓ کو بہترین انسان بنانا چاہتی تھیں۔ آپ نےاُنہیںسرورِ کائناتؐ کی خدمت میں رکھا۔جہاں انہوں نے رسول اللہ ؐ کی رہبری میں دین سیکھنا شروع کیا اور اپنی وفات تک خدمت کے فرائض بخوبی نبھائے۔حضرت انسؓ تقریباً تمام غزوات میں شرکت کی۔ کم عمری کے باوجود بدر کی جنگ میں بھی شرکت کی۔ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ حضرت ہاجرہؑ اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے لیے تیارر ہیں، یہ ماں کی تربیت تھی ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ایک عظیم ولی کی حیثیت سے رحلت فرما گئے،جنہوں نے اپنی والدہ کی تربیت سے ہی ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے سچ بولا اور لٹیروں کو اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کے قابل بنایا۔ ظاہر ہے کہ اُسے اپنی ماں نے ہمیشہ سچ بولنے کی تربیت دی تھی کہ حالات کیسے بھی ہوں۔جب اس نے سچ بولا، تو یہ ڈاکوؤں کے لیے رہنما بن گیا۔ حضرت سید احمد شہیدؒ ایک مشہور بزرگ ہیں، وہ رائے بریلی کے رہنے والے تھے۔ اُس کی ماں نے اُنکی بہت اچھی تربیت کی تھی۔ بچپن ہی سے نہایت نیک، بہادر اور نڈر تھے۔ انہیں اسلام سے بے پناہ محبت تھی، دین کی بات کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اُن کی طرح سرسید کی والدہ، مولانا الیاس کی والدہ، وہ عظیم مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کی اور وہ اُمت کے لیے ایک مثال بنی ہوئی ہیں۔ نہ صرف مذہبی نقطہ نظر سے بلکہ دنیاوی نقطہ نظر سے بھی اگر کوئی کچھ حاصل کر سکتا ہے تو اس میں ماں کا کردار اہم ہوتا ہے۔تھامس الوا ایڈیسن ایک پاگل بچہ تھا ،جس کی ماں نے اُسے صدی کا سب سے بڑا عقلمند بنایا تھا،مس ایڈیسن کے سکول ٹیچر نے کہا کہ وہ پاگل ہے، سکول کے لڑکوں نے اسے سکول سے نکال دیا تھا۔
[email protected]