ملک منظور
بچوں کی دنیا باتفاق رائے حسین دنیا ہوتی ہے ۔اس دنیا میں رہنے والے لوگ یعنی معصومیت سے لبریز بچے اگرچہ دنیا کے بدصورت زاویوں سے ناواقف ہوتے ہیں تاہم کفالت کرنے والے والدین اس سے بخوبی آشنا ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کی دنیا کے اہم ہیرو بھی ہوتے ہیں اور پرورش کرنے والے مدرس ِاعلیٰ بھی ۔والدین بچوں کو انجانے میں بہت ساری مثبت یا منفی چیزیں سکھاتے ہیں ۔
ولدیت ایک ذمہ داری کا دستار ہے، جسے والدین ولدیت کے سفر میں پہنتے ہیں۔ یہ سفر زندگی کے طاقتور اسباق سے بُنا ہوا ہوتا ہے جو والدین اپنے بچوں کو آہستہ آہستہ سکھاتے ہیں۔ اسی لئے والدین بچوں کے سچے استاد ہیں ۔ سونے کے وقت کی کہانیوں اور کھانا کھلانے کے عمل سے والدین اخلاقی اصولوں کی تعمیر کرتے ہیں ۔یہ اصول ان کے کردار کی ڈھال بنتے ہیں ،اسی لئے والدین کو بڑے محتاط انداز میں بات چیت کرنی چاہیے۔ بچوں کی نشونما ایک نازک عمل ہے،اس عمل کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے ۔بچوں کی دوستی کیسی ہو اور دوسروں کے ساتھ ان کا میل جول کیسا ہو، یہ سیکھ بچوں کو گھر سے ہی ملتی ہے ۔اس معاملے میں والدین اپنے دوستوں کی مثالیں دیں ۔
یاد رہے جب چھوٹا بچہ پریشان ہوکر گھر آتا ہے یا کسی ساتھی کی شکایت کرتا ہے تو والدین کو چاہیے کہ اس لمحے کو زندگی بدل دینے والی باتوں کے لیے استعمال کریں۔ جیسے بچہ اپنے دوستوں کا انتخاب کیسے کرے اور یہ کہ اس کے ساتھی کی بہت سی خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں، کوئی ایک شعبے میں اچھا ہوتا ہے تو کوئی دوسرے شعبے میں ۔اس میں توازن رکھنا ہمارا کام ہے ۔کسی کی خامیوں کو نظر انداز کرکے خوبیوں پر دھیان دینا چاہیے۔ یہ ایسا سبق ہے جو کھیل کے میدان سے باہر پھیلا ہوا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑھے گا، وہ اس حکمت کو لے کر چلے گا، پھر جس صحبت میں وہ رہتا ہوگا وہ اس کے بارے میں فیصلے کرے گا اور سمجھے گا کہ دوستی ایک باغ ہے،جس میںطرح طرح کے درخت ہوتے ہیں اور ان سب کی دیکھ بھال یکساں طور کرنی چاہیے۔
منفی یا مثبت ردعمل انسان کی فطری خوبی ہے ۔اس خوبی کو مدنظر رکھ کر بچے کو انکار یا اقرار کرنے کا حق ہے۔ جو کسی چیز کو کھانے سے انکار کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ بچے کی اس ’نہیں‘ کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس سے بچےمیں آپ خود اعتمادی کا بیج بوتے ہیں جو دھیرے دھیرے اچھے پھل دیتا ہے۔ ایسا کرنے سےآپ بچے کو سکھا رہے ہیں کہ اس کی آواز اہمیت رکھتی ہےیا ان چیزوں کو مسترد کرنا ٹھیک ہے جو اس کی پسند کے مطابق نہیں ہے۔ یہ سبق ان کے جسمانی گروتھ کے ساتھ بڑھتا ہے اور سماجی ذ مہ داری کا فہم بھی بڑھتا ہے۔
پُرسکون لمحوں میں ان کی آنکھوں میں دیکھ کر میٹھی میٹھی باتیں کہتے رہو۔ان کے ساتھ صبح شام سیر پر نکل کر دنیائی معاملات پر گفتگو کرتےرہو۔ حق اور باطل میں فرق سمجھاتے رہو۔
اس طرح والدین ان لمحات میں، بچوں کو زندگی بھر کی سچائی سکھا سکتے ہیں – ان کی تعریف کریں۔ والدین کا پیار وہ غذا ہے، جس سے بچے غیر سنجیدہ نوعمری اور ہنگامہ خیز جوانی کے دوران چمٹے رہیں گے۔ غیر مشروط محبت کی طاقت ایک تحفہ ہے جو دیتے رہنا چاہیے۔
اگر بچہ کسی رشتے دار یا دوست پر ناک بھوں چڑھاتا ہے تو اسے مسترد نہ کریں اور نہ ہی غصے سے ڈانٹیں، اس کے بجائے اس پر غور کریں، اس کے جذبات کو تسلیم کرتے ہوئے پیار سے سمجھائیں کہ سب کو پسند نہ کرنا ٹھیک ہے۔اس طرح آپ اس کو سیکھ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی جبلت پر بھروسہ کرے تاکہ وہ یہ سمجھے کہ اس کی ذاتی ترجیحات درست ہیں۔ یہ سبق زہریلے رشتوں کے خلاف اس کی ڈھال بن جائے گی اور یہ یاد دہانی بھی کرتے رہیں کہ عزتِ نفس پر کوئی کمپرومائز نہکریں۔
بچے کو بہت سارے سوالات پوچھنے دیں جیسے’’کیوں؟ کیا؟ کیسے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ بچے کے اندر تجسس اور حکمت کا ایک خزانہ ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے کھلتا ہے۔ انہیں سوالات کرنے کی ترغیب دے کر، والدین علم کی پیاس کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ یہ ان کے تجسس کو بجھانے کے بجائے بھڑکاتا ہے۔اس سے جوابات تلاش کرنے کے لیے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ایک ایسی ذہنیت خلق ہوتی ہے جو سیکھنے کو زندگی بھر کی مہم بناتی ہے۔
بچوں کے سامنے میٹھے اور پیار بھرے الفاظ کا استعمال کریں ۔کبھی گالی گلوچ یا بدزبانی سے کام نہ لیں ۔والدین کے بول چال کا طریقہ بچے کی شخصیت کا حصہ بنجاتا ہے جو بعد میں اس کو مہذب یا غیر مہذب انسان بناتا ہے۔
بچے کی مجموعی نشوونما کے لیے باپ کا وقت بھی بہت ضروری ہے۔ باپ صرف عیش و آرام کی چیزیں فراہم کرنے والا نہیں ہے بلکہ اچھے باپ کے تاثرات کا بچے پر دیرپا اثر پڑتا ہے، جو نہ صرف اس کے ابتدائی سالوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ان کے مستقبل کے تعلقات، کیریئر اور عمومی فلاح و بہبود کو بھی متاثر کرتا ہے۔ باپ بچے کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتاہے وہ انہیں جذباتی، سماجی اور علمی طور پر ترقی کرنے میں مدد دیتا ہے۔ والد کا وقت بامعنی گفتگو کرنے اور ایک ساتھ کام کرنے کے بارے میں ہونا چاہیے جو بچے کی نشوونما پر دیرپا اثر ڈالے گا۔تعلیمی کامیابی بچے کی اسکولنگ میں والدین کی شمولیت کے ساتھ سازگار طور پر منسلک ہے۔ مل جل کر پڑھنا، اسکول کے کام میں مدد کرنا اور محرک گفتگو یہ سب ادراک کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
باپ اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کے رویوں، اعمال اور اخلاق کو متاثر کرتے ہیں۔ جو باپ اپنے بچوں کے ساتھ مفید وقت گزارتا ہے ،وہ اپنے بچوں کے لیے اخلاقی اقدار اور اہم زندگی کی مہارتوں کا نمونہ بن جاتا ہے۔اس طرح ایک مضبوط جذباتی بندھن باپ اور بچے کے تعلقات سے پروان چڑھتا ہے۔ ایک ساتھ کھیلنے سے بچے کو تحفظ اور قبولیت کا احساس ملتا ہے، جو ان کی جذباتی قوت کو مضبوط کرتا ہے۔اس طرح بچے والد کی صحبت میں اپنی قوتوں کو محفوظ طریقے سے تلاش کر سکتے ہیں۔ بلآخر اس طرح باہمی اعتماد اور خود اعتمادی کو مثبت حمایت، تعمیری تنقید، اور کامیابیوں کے اشتراک کو تقویت ملتی ہے۔
بچے مشترکہ سرگرمیوں کے ذریعے اہم سماجی مہارتیں حاصل کرسکتے ہیں ،جیسے باہمی تعاون، میلجول اور تنازعات کا حل۔ باپ اور بچے کے درمیان سماجی روابط سماجی رویے کی حمایت کرتے ہیں جو سماجی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔
والد کے ساتھ معیاری وقت گزارنے کے لیے آزادی کو فروغ دینے اور مدد کی پیشکش کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اپنے بچوں کو جوابدہی اور آزادی کا احساس دلانے کی بات آتی ہے تو باپ بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گذاریں ۔ ان کی طوطلی باتیں سنیں اور سمجھیں،ان کے ساتھ کھیلیں اور کودیں ۔
پتہ۔ قصبہ کھل کولگام،کشمیر ای میل۔[email protected]