بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ اچانک ترک کردیتی ہے۔ 17 فیصد طلباء پرائمری سطح پر اور 12 فیصد سینئر سیکنڈری سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ ترک کر دیتے ہیں۔ تشویش کا باعث بننے والی یہ صورتحال محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پرائمری سطح پر تعلیم کی شرح 82.70 فیصد جبکہ سینئر سیکنڈری سطح پر یہ شرح 88.42 فیصد ہے۔ تاہم دستاویزات کے مطابق تقریباً 46,000 ’آؤٹ آف سکول‘ بچوں کو سکولی نظام میں شامل کر لیا گیا ہے۔سرکاری سکولوں کے اساتذہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں طلباء اچانک تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ علی محمد نوشہری نامی ایک استاد نے کہا’’تعلیم کے حصول کا مسئلہ بنیادی طور پر قبائلی اور دور دراز علاقوں میں دیکھا جاتا ہے جہاں طلباء تعلیم چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔دستیاب دستاویزات کے مطابق ہزاروں طلباء کی نجی سکولوں سے حکومت کے سکولوں میں منتقلی کا ریکارڈ بھی مل چکا ہے، جس کے تحت تعلیمی سال2022-23 میں 2لاکھ17ہزار890 طلباء نے داخلہ لیا، جو کہ کل داخلہ میں 17.87 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ، پیشہ ورانہ تعلیم 804 سکولوں میں متعارف کروائی گئی تھی اور 2023-24میں یہ 1,067 سکولوں تک پہنچا، جس سے 1.25 لاکھ طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے محکمہ تعلیم نے 3,000 آئی سی ٹی اور سی اے ایل لیبارٹریاںقائم کی ہیں اور 2023-24میں 834 آئی سی ٹی لیبارٹریوں اور 1,352 اسمارٹ کلاس رومز کا مزید اضافہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ طلباء کیلئے تجرباتی تعلیم کو بہتر بنایا جا سکے۔محکمہ تعلیم نے 2022-23میں 2,562 ڈھانچوں کے منصوبوں کو مکمل کیا، جس میں شہری کام اور سہولتوں میں بہتری شامل ہے جو یو ٹی کیپیکس اور سماگرہ شِکشا کے تحت کئے گئے۔ ابتدائی تعلیم کی دیکھ ریکھ کو تقریباً 2,000 سکولوں میں متعارف کرایا گیااور ساتھ ہی بچوں کیلئے دوستانہ انفراسٹرکچر جیسے کہ ماڈل کنڈرگارٹن اور عمر کے مطابق فرنیچر بھی فراہم کیا گیا۔ان تمام اقدامات کے باوجود، طلباء کا تعلیمی سفرترک کرنے کا مسئلہ سنگین بن چکا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی نظام میں مزید خصوصی مداخلت کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کا عمل برقرار رکھا جا سکے۔قومی مرکز برائے تعلیمی اعداد و شمار (ایس ای سی این) کے مطابق کم آمدنی والے خاندانوں کے طلباء میں سب سے زیادہ ڈراپ آؤٹ بچوں کی شرح 9.4فیصد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر یہ بچے سکول جانے کے بجائے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے کنبوں کی مالی مدد کر سکیں۔ماسٹر علی محمد نوشہری کے مطابق بہت سے بچے سکولوں کو تھکن کی جگہ سمجھتے ہیں اور ایک تحقیق کے مطابق تقریباً 71فیصد طلباء نویں اور دسویں جماعت میں ہوتے ہوئے ہائی سکول میں دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے’’ایسے طلباء سکول دیر سے جانا پسند کرتے ہیں، کلاسیں چھوڑ دیتے ہیں اور طویل لنچ بریک لیتے ہیں‘‘۔ ماسٹر علی محمد کا کاماننا ہے کہ ایسے طلباء میںدلچسپی کی کمی اکثر سکول سے باہر نکلنے کا باعث بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض طلباء کو اساتذہ سے تعلق قائم کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر طلباء کا کہنا ہے کہ ان کے اساتذہ انہیں محنت کرنے کیلئے اتنی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔