سرینگر// حالیہ بارشوں کے بعد بٹہ مالو بس اڈہ جھیل میں تبدیل ہوگیا ہے،جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے علاوہ دکانداروں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ لگاتار بارشوں کے نتیجے میں بس اڈہ میں کافی پانی جمع ہوا ہے،جس کے نتیجے میں دکانوں میں پانی داخل ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی داخل ہونے کے نتیجے میں دکانوں میں موجود ساز و سامان اور مال خراب ہوا ہے،جس کی وجہ سے دکانداروں کو کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بس اسٹینڈ کے اقبال مارکیٹ میں ہر سو پانی ہی پانی جمع ہوا ہے،اور گزشتہ کئی روز سے دکانداروں نے اپنی دکانیں بھی بند کی ہیں۔ نثار احمدنامی دکاندارنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انتظامیہ نے بس اڈے سے پانی کی نکاسی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا،جس کے بعد دکانداروں نے از خود ہی بارشوں کے پانی کی نکاسی کیلئے اپنی سطح پر چھوٹے موٹے اقدامات اٹھائے۔انہوں نے سرینگر میونسپل کارپوریشن سمیت دیگر متعلقہ محکموں اور ضلع و صوبائی انتظامیہ سے درخواست کی کہ وہ پانی کی نکاسی کیلئے فوری طور پر اقدمات اٹھائے تاکہ وہ پھر سے اپنا کاروبار شروع کرسکے۔
سمارٹ سٹی کے نام پر لیپاپوتی کے بجائے منصوبے کی ضرورت
نیشنل کانفرنس کا نشیبی علاقوں سے پانی کی نکاسی کویقینی بنانے پر زور
سرینگر//نیشنل کانفرنس نے انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ مسلسل موسلادھار بارشوں سے جو نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں ، وہاں پانی کی نکاسی کے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ مسلسل موسلادھار بارشوں کی وجہ سے وادی کے بہت سارے علاقوں زیر آب آگئے ہیں اور اس کے علاوہ کئی سڑکیں اور گلی کوچے زیر آب آگئے ہیں ، جس کی وجہ سے آبادیوں کا عبورو مرور بھی مشکل ہوگیا ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی خستہ حالی وجہ سے اکثر و بیشتر سڑکوں پر بنے گڑھوں میں پانی جمع ہوگیا ہے، مسافر گاڑیوں اور راہگیروں کیلئے دردِ سر بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرینج سسٹم کے ناکارہ بن جانے سے بھی بارشوں کا پانی سڑکوں پر جمع ہوگیا ہے۔ ساگر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ گذشتہ برسوں کے دورا ن ڈریجنگ، سڑکوں کی تعمیر، ڈرینج سسٹم کی تعمیریا تجدید کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ سڑکیں کھنڈات میں تبدیل ہونے کے علاوہ بارشوں کے دوران ندی نالوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ سب کچھ اس لئے ہورہاہے کہ 2015 کے بعد ڈرینج سسٹم اپگریڈ نہیں کیا اور نہ ہی ڈرینوں کی صفائی کا کام ہوتا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ پانی کی نکاسی کیلئے جنگی بنیادوں پر پمپوں کو نصب کیا جائے تاکہ لوگوں کو بروقت راحت پہنچائی جائے اور ساتھ ہی سمارٹ سٹی کے نام پر لیپاپوتی کے بجائے ڈرینج سسٹم اور سڑکوں کی تعمیر کیلئے فوری منصوبہ بندی کی جائے۔
لائیگرو کا شہر میں پانی جمع ہونے پر اظہار تشویش
لوگوں سے پلاسٹک اور پولی تھین کا استعمال کم کرنے کی اپیل
نیوز ڈیسک
سرینگر// پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سٹیٹ یوتھ سیکریٹری عارف لائیگرونے شہر میں پانی جمع ہونے کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔تین دن کی بارشوں کی وجہ سے شہر کے مرکز لال چوک اور سری نگر کے دیگر علاقے تالاب کی شکل اختیار کر گئے ۔لائیگرونے کہا کہ بڑے پیمانے پر جمع ہونے سے نہ صرف سری نگر شہرکے نکاسی آب کے ناقص نظام کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس سے لوگوں میں شہری ہونے کے احساس کی کمی بھی ظاہر ہوگئی ہے ،جس کی گواہی نالوں کے اندر موجود پولی تھین اور پلاسٹک کے کچرے کے ڈھیروں سے ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یکے بعد دیگرے حکومتیں سری نگر میں نکاسی آب کا ایک مناسب نظام تعمیر کرنے میں ناکام رہی ہیں جو بھاری بارشوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا ، لوگوں نے نکاسی آب کے نظام کی دیکھ بھال نہ کرنے کے ذمہ داری بھی نہیں نبھائی ہے ، اور یہ ان لوگوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ بھاری بارش کے دوران اس سے کیا صورتحال ابھر سکتی ہے۔ برتاؤ کیا ہوگا۔انہوں نے کہا‘‘مجھے توقع نہیں ہے کہ وہ اتنے نادان ہوں گے کہ وہ تیاری اور ناجائز طریقہ کار کے مابین فرق نہیں بتاسکتے ہیں۔ ہمیں انتظامیہ پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی بے حسی نے پوری وادی خصوصاً سرینگر کو سیلاب جیسے حالات سے دوچار کردیا ہے۔ میں 2014 سے سری نگر شہر میں نکاسی آب کی ناکامی کا معاملہ اٹھا رہا ہوں لیکن مستقل طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سری نگر میں دستیاب ڈی واٹرنگ سسٹم انتہائی معمولی ہے اور حکومت کو سرینگر میونسپل کارپوریشن کے انسانی وسائل اور مشینری کی اپ گریڈیشن پر توجہ دینی چاہئے تاکہ ان مشکل حالات سے نمٹنے کے قابل بنایا جاسکے۔لیگرو نے لوگوں سے بھی اپیل کی کہ وہ پلاسٹک اور پولی تھین بیگ کا استعمال کم سے کم کریں ،جو نالیوں کے اندر موجود رہتے ہیں اور جو پانی کے بہائو کو روک لیتے ہیں جس سے نالیاں بند ہوجاتی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ"ہمیں ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اچھی طرح یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولی تھین اور پلاسٹک کے تھیلوں کا استعمال نہ کرے۔تاکہ نالیاں اور پائپیں بند نہ ہوں۔حکومتی ایجنسیوں کو لازمی طور پر محتاط رہنا چاہئے کہ اگر کوئی تکلیف پیدا ہوتو پائیدار حل لائے جانے تک فوری طور پر کاروائی کی جائے۔