Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

بُزرگوں کےساتھ بد سلوکی باعثِ عذاب

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 4, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
آج ہمارے معاشرے میں مسائل کی بھرمار ہے۔ انسان دشمن بدعات ہر گھر میں اپنا ڈھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔جن کی وجہ سے آئے دن نہ صرف مصائب و مشکلات میں اضافے ہورہے ہیں بلکہ انسانی زندگیوں کے زیاںہوتے رہتے ہیںاور بعض اوقات ہلاکتوں کا موجب بھی بن جاتے ہیں۔یہاںیہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا واقعی آج بھی انسان اشرف المخلوقات کے درجے پرفائز ہے یا وہ اس منصب سے دستبردار ہوکرپستی کے نچلے پائیدان پر آچکا ہے؟ وجہ کوئی بھی ہو،معاملہ تشویش ناک ہے۔ آج ہم اُس اہم ترین مسئلہ کی بات کرنے جارہے ہیں،جو تقریباًہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ خصوصاًوہ گھرانے جہاںبزرگ ہے اور نوجوان بھی۔لیکن اُن کے درمیان دوریاں ہیں۔ جی ہاں!میں بات کر رہا ہوں، معاشرے میںنوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان بڑھتے ہوئے خلیج کی۔جس کے سبب جہاں شفقت اور محبت میں کمی آگئی ہے وہیںرشتوں میں تلخی اور دوریاں بھی پیدا ہوچکی ہیں۔دیکھنے میں تو یہی آرہا ہے کہ بزرگوں اور جوانوںکے مابین ہر معاملے میں خلا پیدا ہوچکا ہے۔ نہ وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںاور نہ ہی ایک دوسرے کی بات ماننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔دینی ،سماجی ،سیاسی ، اخلاقی اور معاشی نظریات کے حوالے سے بھی اُن کے خیالات ، جذبات اور احساسات بالکل الگ الگ ہیں،یہاں تک کہ زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ میں بھی اختلافات موجود ہیں۔ آج کل کے بیشتر نوجوان اپنے گھر کے یا کسی غیر بزرگ کے ساتھ عجیب و غریب طریقوں سے پیش آتا ہے۔ حالانکہ ہر بزرگ کی یہی چاہت ہوتی ہے کہ اس کی بزرگی کو سمجھا جائے،اُس کےبات کو مانا جائےاور اس کے احساسات کی قدر کی جائے ، خاص طور وہ نوجوان، جو اس کے اپنے گھر میں موجود ہوتے ہیں یا پڑوس میں رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُسے اپنے گھر کے نوجوانوں کی فکر زیادہ دامن گیر ہوتی ہے، مگر وہ دوسرے نوجوانوں کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتا ہے۔ یہ اس لئے کہ اُس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہوتا ہے ،وہ زندگی کے مختلف تجربات سے گذر چکا ہوتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ اپنے معاشرے کا یہ نوجوان اُس غلط راستے سے اجتناب کرےجس کا محاصل نقصان دہ یا تباہی ہوتی ہے۔ مگر دوسری طر ف معاشرے کا نوجوان اپنی ہی دنیا میں مگن ہوتاہے۔  کسی حد تک یہ اس کا حق ہوتا ہے اور کسی حد تک ٹھیک بھی۔ کیونکہ وہ جدید دور میں زندگی گذاررہا ہے۔ مگر ترقی اور جدیدیت کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک نوجوان بزرگوں کو کسی خاطر میں نہ لائیں،اُن کی کوئی بات نہ سُنیں۔ اُن کے مشاہدات کو بروئے کار نہ لائیںاور اُن کی زندگیوں کے اُتار چڑھاؤ سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔ آنے والوں سطروں میں ان وجوہات کی بات ہوگی، جس سے یہ مرض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ 
پہلا ہے مادیت۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عصرِ حاضر میںہر اعتبار سے وہی شخص عزت و احترام کے قابل ہے، جو کمائو ہے۔ اگر ایک دانا اور پڑھا لکھا تندرست نوجوان بے کار بیٹھا ہوا ہےتو اسُےقدر کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر اُس میں کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری ہے تو پھربات دوسری ہے۔گویاایک تندرست نوجوان کے لئے بے کاربیٹھناایک عیب کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ اب اگر ہم اُن بزرگوں کی بات کریں، بوڑھاپے کے باعث جن کے اعضاء جواب دے چکے ہوں اور بے کار بیٹھے ہیںتو ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا کوئی جواز ہی نہیںہے۔ دیکھا یہی جارہا ہے کہ مادیت کے اس دور میں معاشرے کاایک جوان بیٹا اور ایک جوان بیٹی یہی سمجھتے ہیں کہ  جو چیز اُن کی راہ میںبنے،اُس سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ ایک بزرگ کی اتنی ہی ضروریات ہیں، جتنی ایک شیر خوار بچے کی ہوتی ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محنت ،محبت، صبر اورقوت ِبرداشت کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان میں یہ سبھی وصف عموماًکم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس ذمہ داری کو بھی برداشت نہیں کر پاتے کہ ایک بزرگ کی دیکھ بھال ہوسکے۔ان باتوں کو بار بار دہرانا آج کے نوجوانوں کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں اب ان لوگوں نے اپنے بڑے بزرگوں سے ہی بہت دوری اختیار کرلی ہے۔ گویا نوجوانوں میںمادیت کی دوڑ نے بزرگوں کو تنہا کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنوں سے بات نہیں کر پاتے ہیںاور اپنے آپ کو بے یارو مددگار سمجھتے ہیں۔
دوسرا ہے نیا زمانہ۔ ہاں! یہ حقیقت ہے کہ زمانے بدلتے رہتے ہیں۔ سماجی تبدیلیاں، سیاسی تبدیلیاں، معاشی تبدیلیاں، اخلاقی تبدیلیاں، ذہنی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ Primitive society سے ہم Industrial society میں داخل ہو چکے ہیں۔ Globalization جو پہلے سے ہی ہمارے درمیان موجود تھی، اب تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس تبدیلی نے رشتوں کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ "Race for profit" نے اور چیزوں کی طرح فیملی نظام کو بھی تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ منفعت پسندی کے ساتھ ساتھ ایسی خرابیاں ہمارے سماج میں داخل ہوچکی ہیں، جن سے ایک دوسرے کے ساتھ لگاو اور محبت کے عنصر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ بُرا اثر ہمارے بزرگوں پر پڑا ہے۔ تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں بزرگ کسی کھاتے میں بھی نہیں آتے۔ وہ اُس پرانے سماج سے تعلق رکھتے ہیں، جو آج کی مصنوعی ذہانت کی دنیا سے کافی حد تک مختلف ہے۔ آج کا سامراجی نظام مفاد پر مبنی ہے، جو چیزیا جو انسان فائدہ دے سکے، اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اگر نہیں تو وہ ایک بے کار شٔے کہلاتی ہے۔ ایسے حالات میں، نوجوان کا بزرگوں سے میل ملاپ رکھنا، بات چیت کرنا اور ان کی جائز ضروریات کو برداشت کرنا ایک خواب بن گیا ہے۔ 
تیسرا ہے ہمارا تعلیمی نظام۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی کافی تک ان حالات کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے یہاں انسان کو بندر کی ترقی یافتہ شکل مانا جاتا ہے۔ جی ہاں! کسی حدتک یہ ترقی کے لئے ٹھیک ہے، مگر انسان کو جانور کی سطح تک ہی محدود کرنا کیا دانائی کے زمرے میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں انسانی اقدار کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے۔ ایک بچہ اور ایک بزرگ دونوں محتاجوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کرنا گھر کے دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کی ایک جیسی طفلانہ حرکات برداشت کرنا ان کا حق ہے۔ ان کے حاجات کو پورا کرنا انسانی اقدار میں آتا ہے۔ مگر ہمارا تعلیمی نظام ان چیزوں سے بہت دور ہے۔ شیر خوار بچوں کو چھوٹی گاڑیوں میں اسکولوں کے لئے روانہ کرنا اور بزرگوں کے لئے old-age homes کاانتخاب کرنا، اس گناہ کے وجوہات ہیں۔ ایک بچے کو کبھی بھی یہ نہیں سکھایا جاتا ہے کہ بزرگ ایک قوم کی شان ہوتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس اس کے ذہن کو پہلے سے ہی آلودہ کیا جاتا ہے کہ اگر اسکول میں استاد پوچھے، تو کہہ دینا کہ ہمارے گھر میں کوئی بزرگ نہیں ہے۔ ہم nuclear family میں رہتے ہیں۔ اس سے ان بچوں میں شروع سے ہی اپنے بزرگوں کے تئیں منفی جذبات ابھرتے رہتے ہیں، جس کے پھل بالآخر بہت کڑوے ہوتے ہیں۔ 
چوتھا ہے دین کا محدود نظریہ۔ ہمارے یہاں مذہب حقوق اللہ تک محدود کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مخصوص رسومات کو دین کا نام رکھا گیا ہے۔ حقوق العباد یہاں کھبی کھبی دہن کے دائرے میں آتے ہیں۔ مولوی اور عام لوگ بھی اس حقیقت کو عام کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ ماںباپ، ہمسایہ، گاؤں کے لوگ، وغیرہ ان کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا وہ واقعہ جس میں وہ ایک یہودی بزرگ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس میں عالم انسانیت کے لئے درس ہے کہ انسان کی تعظیم کتنی ضروری ہے۔ مگر ہم نے مذہب کو اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ فروعی مسائل پر ایک دوسرے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگاتے پھرتے ہیں اور اسی کو ہم نے دین کا نام دیا ہے۔ جبکہ اس نصیحت کی طرف ہم کم دھیان دیتے ہیں۔ بزرگ سردی سے، گرمی سے، بھوک سے یاپیاس سے مرے، یہ فکر ہمیں دامن گیر نہیں ہوتی اورنہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خود واعظ خواں تک اپنے بزرگوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ایک انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔   
پانچواں ہے ہمارا سماج۔ ہمارے سماج کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ کسی بھی خرابی،بُرائی یا گناہ کے خاتمے کے لئے یک جُٹ نہیں بن جاتے۔ دشمنوں کا ساتھ دینا شایدہماری  عادت ہے، مگر اپنے یہاں پنپ رہےکسی بدعت یا گناہ کومٹانا ہماری فطرت میں شامل نہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ نوجوان بزرگوں سے ناروا سلوک کرتے ہیں۔ پھر بھی ہم چپ چاپ بیٹھے ہوئے اس کو فروغ دے رہے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان گھروں کے چکر لگاتے، جہاں پر بزرگوں سے نازیبا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کو پیار سے سمجھاتے اور ذہن نشین کرتےکہ ہمارے بزرگ ہمارے سماج کا ایک انمول حصہ ہے۔ اِن کے بغیر حقیقی ترقی ممکن نہیں ہے۔ مگر ہمارا کام اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کیسے ہم اپنے مفاد کے لئے دوسرے انسانوں کو تباہی کے دلدل میں پھینک دے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےمعاشرہ کےبزرگوںطبقےکو یا تو خاموشی نے اپنے گھیرے میں لیا ہے یا پھر جنونی بنادیا ہے، جس کی وجہ سے اب وہ پہلے سے بھی زیادہ بوجھ تصور کئے جانے لگے ہیں۔ 
آخری ہے دوسروں کی نقالی۔ ہمارے یہاں تو بڑوں کی قدر رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ چھوٹے سے لے کر بڑا اپنے سے بڑے بزرگوں کی عزت کرتا تھا۔ مگر افسوس ! دوسروں کی نقالی میں ہم اتنے مگن ہوگئے کہ ہم اپنےاقدار کو ہی بھول گئے ہیں۔ دوسروں کی رو میں بہہ کر ہمارے اوپر اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ ہمارے لئے اب انسان اور حیوان میںفرق کرنا تک مشکل ہوگیا ہے۔ نوجوان دوسروں کی دیکھا دیکھی میں اپنے بزرگوں سے وہ سلوک کرتے ہیںجو کہ انسانی اور اخلاقی اقدار کے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں کو اب اس کی عادت پڑچکی ہے،اُ ن کے لئے اپنے بزرگوں کے ساتھ ناروا سلوک کوئی گناہ ہی نہیں رہا ہے۔ ان کا زندگی گزارنے کا ڈھنگ ایسا ہے کہ جس میں کسی کی بھی کوئی بھی مداخلت ناقابل برداشت ہے،ان کو سمجھاناوقت کو ضائع کرنے کے مترادف بن چکا ہے۔وہ ذہنی طور پر اتنے پسماندہ ہوگئے ہیںگویا اخلاقی طور پر نچلی سطح پرآگئے ہیں۔ 
اب بھی موقع ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک بار اس بات پر غورو فکر کریں کہ یہ بزرگ جب ہم سے بچھڑجاتے ہیں تو وہ وہاں جاتے ہیں،جہاں سے دوبارہ لوٹ کر واپس نہیں آتے ہیں۔ بلا شبہ موت کا مزا ہر کسی کو چکھنا ہےاور یہ اٹل قانون ہر کسی جاندار پر لاگو ہے۔ ہمارے بزرگوں کا معاملہ کچھ الگ نہیں ہے۔ انسان کی جتنی عمر گزر جاتی ہے، اتنا ہی وہ موت کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ اس ضمن میں اپنے بات کرتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ میں ہر گھڑی اور ہر لمحہ اپنے دادا اور دادی کی اہمیت  ضرورت کو محسوس کرتا ہوں۔ وہ دونوں ہر وقت ہم بھائی بہنوں کے لئے فکرمند رہتے ہیں۔ ہماری غیر حاضری میں گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اپنے بچپن ،جوانی اور بوڑھاپے کی باتیں شیئر کرتے رہتےہیں،اپنی زندگی کے تجربات سے ہمیں فیض یاب کرتے ہیںاور اُتار و چڑھائو کے قصے سناکر ہمیں نصیحت بھی کرتے رہتےہیں۔ اس طرح ہمیںزندگی کو بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کاموقع ملتا ہے۔ قدرت جیسے آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ تو میرے نوجوان ساتھیو! آواور عہد کروکہ آج سے ہی ہم بزرگوں کی عزت کریں گے۔اُن کی جذبات و احساسات کی قدر کرکے اُ ن کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیںگے،وہ اگر ہم سے بات کرنا چاہتے ہیںتو اُن سے باتیں کریں گے۔ یاد رکھئے ایک دن آپ کو بھی بوڑھا ہونا ہے اور بزرگ بننا ہے۔اُس وقت آپ کے ساتھ کیا سلوک ہوگا ،اُس پر غور کیجئے ۔اس لئےاپنے بزرگوں کو ہر ممکن خوش رکھنے کی کوشش کیجئے۔ حقیقی معنوں میںآپ کی زندگی سنورجائے گی اور اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
رابطہ۔7889346763
(مضمون نگار،الھدیٰ کوچنگ سنٹر مصطفیٰ آباد، عمر آباد، زینہ کوٹ،سرینگر، میں مدرس ہیں)
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

شوپیاں کے شکرو کیلر کے جنگلات میں ملی ٹینٹوں اور فوج کے مابین مسلح تصادم ، 3ملی ٹینٹ جاں بحق
تازہ ترین
جموں و کشمیر :سرحدی علاقوں میں حالات معمول پر، متاثرین کی بازآبادکاری کے لیے حکومت سرگرم
تازہ ترین
ایم ایل اے اُرڈی کو صدمہ، مامو انتقال کر گئے
تازہ ترین
راجوری :محکمہ صحت کے ملازمین کی تنخواہیں روکی گئیں
تازہ ترین

Related

کالممضامین

پونچھ اور پہلگام | درد کے سائے میں انسانیت کا چراغ صدائے سرحد

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ بندی کمزوری نہیں ،طاقت کا ثبوت زاویہ نگاہ

May 13, 2025
کالممضامین

ہندوپاک کشیدگی اور بے پناہ تباہی | سرحد کے آرپارموت و تباہی کی المناک تاریخ رقم گردش دوراں

May 13, 2025

ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی! ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی!

May 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?