روزہ، جس کو عربی میں صوم، انگریزی میں فاسٹنگ اور ہندی میں برت کہتے ہیں،ہر مذہب میں کسی نہ کسی طور پایا جاتا ہے۔اگرچہ اس کی مدت اور اس کی شکل میں ایک مذہب اور دوسرے مذہب کے درمیان اختلاف ہے مگر وہ ایک یا دوسری صورت میں ہر جگہ موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ نفس کو کنٹرول میں لانے کی تربیت ہے اور نفس پر کنٹرول(یا نفس کشی) کو ہر مذہب میں خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذہب جس قسم کا انسان بنانا چاہتا ہے، اُس کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا نفس اس کی عقل کے قبضہ میں ہو اور نفس کشی آدمی کو اسی کے لئے تیار کرتا ہے۔حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان اخلاق سے عاری نہیں بلکہ فطرت کا عطا کردہ پاکیزہ لباس پہن کر آتا ہے۔ اس لباس فطرت کے دامن میں شرک کا کوئی داغ اور الحاد کا کوئی دھبہ تک نہیں ہوتا۔ اس پر قلم کا میل اور ہوس کی گندگی نہیں لگی ہوتی ۔ مگر دنیا میں موجود شیطانی ترغیبات ، حیوانی خواہشات اور ماحول کے اثرات انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال دیتے ہیں، وہ فطرت میں موجود خیر وشر کے تصورات کو بھول کر خواہش نفس کی پیروی اختیار کرتا ہےاورجیسے جیسے وہ اس راہ پر آگے بڑھتا ہے، یہ گرد آلود راستہ اُس کے دل کے دامن اور فطرت کے لباس کو غلیظ سے غلیظ تر کرتا چلا جاتا ہے۔ غفلت کی دھول اور سرکشی کی سوادیت فطرت کے حسن کو نری غلاظت میں بدل دیتی ہے۔ انسان پہلے پہل خیر و شر کی تمیز کھوتا ہے اور پھر معاشرے میں ہر شر خیر اور ہر خیر شر بن جاتا ہےاور اسطرح پورا ماحول پراگندہ ہو کرغلیظ بن جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ آدمی دوچیزوں کا مجموعہ ہے، جسم اور روح ۔جسم مادی اور کثیف ہے، روح غیر مادی اور لطیف۔ اگر ہم ہر خواہش کو بے روک ٹوک پورا کرتے رہیں توجسم زور آور بن جائے گا اور وہ روح پر غالب آجائے گا ۔ چنانچہ روزہ اُسی آزادی پر پابندی لگانے کا دوسرا نام ہے۔ روزہ آدمی کے جسم کو ایک حد کے اندر رکھ کراس کواِس قابل بناتا ہے کہ وہ جسم پر حکمرانی کرے، اس کا لطیف وجود اس کے کثیف وجود کو اپنے قبضہ میں رکھےاور جب انسان کثیف وجود پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس میںفلاح ِآخرت اور پاکیزگی کے حصول کے لئے متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز ، خدا کے حضور میں پیش ہونے کا خوف، اُس کی پکڑ کا اندیشہ، اُس کے عذاب کا ڈر پیدا ہوجاتا ہے،جو تقویٰ کہلاتا ہے اور یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے ۔چنانچہ ایک طرف رمضان المبارک میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی تو دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رُکنا ،انسان کو نہ صرف پر ہیز گاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے، جسے استعمال کر کے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے۔اگرچہ آدمی صبح سے شام تک کھانا پینا بند رکھے تو بس یہی روزہ نہیں، روزہ کی یہ ظاہری صورت ایک علامت ہے اور اس کے ذریعے ایک خاص روحانی اور اخلاقی سبق دینا مقصود ہے، اوروہ سبق یہ ہے کہ دنیامیں آدمی کو چاہئے کہ وہ صحیح و غلط اورجائز و ناجائز اور حق و ناحق میں فرق کرے ،اور ہر حال میںبُرائیوںو خرابیوں سے اپنے آپ کوبچائے۔یہی وہ چیزہے جس سے وہ نجات کی راہ پاسکتاہے۔ صبرواستقامت بلاشبہ زندگی کی بڑی طاقت ہے، یہی تمام فتوحات اور کامیابیوں کا راز ہے،یعنی حقیقی روزہ ہی انسان میں صبر کی صفت پیدا کرتا ہے ۔ روزہ کیلئے عربی لفظ صوم کے اصل معنی ہیں رُکنا اور صائم کے معنی ہیں رُکنے والا۔ صائم سے مراد وہ انسان ہے جوکھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے وقتی طور پررُک جائے، یہ رُکنا اور پرہیز کرنا آدمی کے اندر برداشت کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اوروہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ جب سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں تو وہ ان کے مقابلہ میں پوری طرح جم سکے ۔یاد رکھو، روزہ اچھی چیز ہے لیکن حسد و غرور کے بغیراور روزہ کا فائدہ تب تک ہرگز نہ پائوگے جب تک مالِ حرام سے پرہیز نہ کروگے،کیونکہ رمضان آدمی کیلئے اپنے نفس اور اپنی خواہشات سے لڑنے کا مہینہ ہے۔ بُرائی کی طاقتوں کو زیر کرکے اُن کے اوپر قابو پا نے کا مہینہ ہے اور دوبارہ نیک بندہ بننےکا عزم لیکر نئے سال میں داخل ہونے کا مہینہ ہے۔