زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ ہے ۔زبان کی نعمت کے باعث ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔انسان اور حیوان میں زبان ہی ایک بہت بڑا فرق ہے ۔زبان کی مدد سے انسان ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کا پیغام ، خواہش، ضرورت یا مطالبے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں ۔زبان احساسات اور جذبات کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ہر زبان یا بولی اپنے بولنے والوں کی تہذیب و ثقافت کی خصوصی طور آئینہ دار ہوتی ہے ۔تہذیب و ثقافت سے میری مراد کسی علاقے ، خطے یا جگہ رہنے والے لوگوں کا رہن سہن ، میل ملاپ ،کھانے پینے کے طور طریقے اور کلچر وغیرہ ہیں۔زبان کی وجہ سے فرد اور سماج کو پہچان ملتی ہے یعنی زبان یا بولی ایک علاقے میں رہنے والے لوگوں کو شناخت بخشتی ہے جیسے کشمیری زبان کشمیریوں کی شناخت اور پہچان ہے ۔اسی طرح ڈوگری جموں شہر اور آس پاس میں رہنے والے لوگوں کی شناخت ہے۔
بچہ جب ماں کی گود میں پل رہا ہوتا ہے تو ماں سمیت پورا گھرانہ کچھ شعوری اور کچھ غیر شعوری طور اپنے بچے یا بچی کو اپنی موروثی زبان سکھلاتی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے اس زبان کو مادری زبان کہا جاتا ہے۔میں اس کالم میں اس زبان یا بولی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کا ہمارے یہاں کوئی پُرسان حال نہیں ہے ،جس کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جارہاہے جیسے اس کا وجود نہ کے برابر ہو ۔اس زبان کا نام ’’پُرکی‘‘ ہے اور یہ زبان ضلع کرگل لداخ میں رہنے والے تقریباً 75فیصد لوگ بولتے ہیں لیکن اس کے باوجود ریاستی یا ملکی دستاویزات میں اس زبان یا بولی کا کوئی نام و نشان تک نہیں۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بوٹی اور بلتی اس زبان کا نعم البدل قرار دیا جاتا ہے ۔ حکومت کی پُرکی کے تئیں اس بے توجہی کی وجہ سے یہ زبان رُوبہ زوال ہے بلکہ مر مٹنے کے قریب ہے ۔زبان انسانوں کی طرح نہیں مرتی بلکہ غیر محسوس طریقے سے فوت ہوجاتی ہے ۔وہ اس طرح جب ایک زبان کے بولنے والوں کی تعداد لگاتار کم ہوتی جائے اور دوسری زبانوں کی ملاوٹ یا آمیزش سے اس کی اپنی انفرادیت ختم ہوتی رہتی ہے ۔ ارباب ِ اقتدار کے علاوہ میں ایک سوال ان نام کے دانشوروں ،ادیبوں و شاعروں سے بھی کرنا چاہتا ہوں جنہیں اس زبان یا بولی (یعنی ’پُرکی‘ )کے دم سے سماج میں نام ملا اور شہرت ملی ہے ۔انہوں نے اس زبان کی ترقی کے لئے کیا کیا اقدامات کئے؟ اس زبان کی بقاء اور ترویج وحفاظت کے لئے ان کا تعاون (Contribution)کیا ہے ؟ میں جموں و کشمیر اکیڈمی آف کلچر ایند لنگویجز کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات نے اس زبان کی ترقی و فروغ کے لئے آج تک کیا کیا اقدامات کئے ہیں؟ یاد رکھئے کہ صرف مشاعروں کی محفلیں سجانے سے اس زبان کا بھلا نہیں ہونے والا ہے ۔ میں صدق دلی سے یہاں یہ بھی واضح کرنا چا ہوں گا کہ میں مشاعروں کے خلاف نہیں ہوں بلکہ مشاعروں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ اس زبان کی ترقی کے لئے کر ناباقی ہے جس کی بہت گنجائش ہے۔کچھ مفاد پرست لوگ پُرکی زبان کو بلتی یا بوٹی میں ضم کرنے کی بے تُکی باتیں بھی کررہے ہیں ،یہ اس زبان اور اس زبان کے بولنے والوں کی شناخت کو سرے سے ختم کرنے کی ایک مذموم حرکت ثابت ہوسکتی ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ زبان زندہ وپائندہ رہے اور جدید دور میں سر اٹھائے ترقی کے زینے بھی طے کرے۔یہ صورت حال تمام محبان پُرکی شاعروں اور ادیبوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس زبان کو نئے سرے سے جدید خطوط پر بنانے (Construct) سجانے اور سنوارنے کی ٹھوس کوششیں کریں اور نایاب لفظوں کو دریافت کریں تاکہ ہماری زبان کی شناخت قائم رہ سکے اور پُرکی تہذیب و تمدن کے سرمائے کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔ بلاشبہ پُرکی زبان کو زندہ وجاوید رکھنے کی ایک کوشش آل انڈیا ریڈیو کرگل نے بھی کی ہے جب سے اس اسٹیشن سے پُرکی خبروں اور دیگر پروگراموں کی نشریات شروع ہوئیں، البتہ ان میں بھی اصلاحات کی گنجائش ہے ۔کچھ نیوز ریڈر حد سے گزر کر نئی دہلی کو ’’سومہ دہلی‘‘وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے ۔کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے لفظی ترجمہ کی گنجائش نہیں ہوتی ہے ۔جیسے موبائیل ،نئی دہلی،ریڈیو ،ٹی وی اور کمپیوٹروغیرہ وغیرہ۔ان کو ایسی ہی اپنی شکل میں پیش کردینا ہی بہتر رہے گا ۔ اللہ ان صاحبان کو دونوں ہدایت اور کامیابی عطا کرے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ خبروں اور دیگر پروگراموں میں البتہ پُرکی کے بجائے ضرورت کے تحت دیگر زبانوں کے الفاظ کا زیادہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے ۔اگر ہم نے آج بھی زبان کو درپیش چیلنجوں کا نوٹس نہیں لیا تو آنے والے ایام میں ہم اپنی اس قیمتی زبان اور اس سے جڑے کلچر اور روایات کو محفوظ کرکے آنے والے نسلوں تک نہیں پہنچا سکیں گے ۔آخر یہ فیض ؔ کے اس شعر کا حوالہ دے کر عوام وخواص سے یہی کہوں گا ؎
ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں
جو دَل پہ گزرتی ہے رقم کرتے ہیں