رحیم رہبر
میں چونک گیا جب مجھے بتایا گیا کہ میں نارِ نمرود کے قریب کھڑا ہوں! میں لوہے کی زنجیروں میں بندھا تھا۔ میں صرف بول سکتا تھا۔
’’بول کہ تیرے ہونٹ آزاد ہیں!‘‘
ایک پہرہ دار نے مجھے سے کہا
’’وللہ ُ خیرالحافظین‘‘ میں نے اونچی آواز میں بولا۔
’’یہ۔۔یہ کیا ہوا؟‘‘ پہرہ دار نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی جو ہونا تھا‘‘۔ میں نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’نارِ نمرود تمہارا مقدر ہے‘‘۔ اُس نے غصے میں کہا۔
’’وللہ ُ خیرالحافظین‘‘ میں نے پھر اونچی آواز میں بولا۔
’’تمہیں ابھی آگ کے اس کربناک تالاب میں ڈال دیا جائے گا، چند لمحوں کے بعد تم محض ایک مٹھی بھر راکھ ہوجائوگے۔ اس دہکتی ہوئی آگ کی طرف دیکھو‘‘۔
’’میں اپنے ہونے سے واقف ہوں‘‘۔ میں نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’تمہارا جُرم ثابت ہوا ہے‘‘۔ پہرہ دار نے غصے میں کہا۔۔۔
’’تبھی تو میں یہاں ہوں‘‘۔ میں نے دھیمی آواز میں بولا۔
’’تم کیا جیوگے!؟‘‘ اُس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
’’میں ہزار سال جیوں گا۔۔۔ہاں۔۔۔ پر تم ضرور مِٹ جائوگے!‘‘ْ
میرا جواب سُنکر پہرہ دار آگ بگولا ہوگیا۔
’’کچھ تو خود پر ترس کھائو۔ تمہیں جلنا ہے اور جل کر راکھ ہونا ہے۔۔۔ پھر بھی اپنا جُرم تو سنتے جائو‘‘۔
’’میں جانتا ہوں میں مجرم زمانہ ہوں پر تم لوگ بھی کیا ثواب گار ہو۔ تمہارے آقا کو بھی میرے ساتھ اسی آگ میں جلنا ہے۔ وہ جل کر راکھ ہوگا۔ اُس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ میرے راکھ سے کھیت، کھلیان، باغ، جنگل اور صحرا سب شاداب ہونگے۔۔۔۔ میں۔۔۔ میں لوٹ کر آئوں گا کبھی پھول بن کر اور کبھی سورج بن کر۔ میری خوشبو سے سارا عالم معطر ہوگا اور میں اپنی روشنی سے ظلمت کدہ کو تابدار بنادونگا۔‘‘
’’ہیے نادان! یہ سب کچھ میرے آقا کے کہنے پر ہورہاہے۔ میں اُسی کے فرمان کو بجا لا رہا ہوں بتائو تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟‘‘
’’میں نمرود سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
اِس گفت و شنید کے فوراً بعد نمرود محافظوں کے حصار میں میرے قریب آگئے۔
’’بول۔۔۔!ُ نمرود غُرّایا
‘‘میں ایک تخلیق کار ہوں۔۔۔ میں نے تمہاری کہانی تخلیق کی ہے۔ تم ہی میری کہانی کا محور ہو۔ میں نے تمہارے کالے کرتوتوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ میں نے اس کہانی میں تمہارا وہ سارا کھیل دکھایا ہے جو اب تک تم نے کبھی عادل بن کر، کبھی مبلغ بن کر، کبھی مُفکراور فلسفی بن کر، کبھی حکیم اور طبیب بن کر اور کبھی غم خوار اور امانت دار بن کر کھیلا ہے۔ اُن دوشیزائوں کے وہ کربناک قصے بھی اس کہانی میں درج ہیں جن کو تم نے اپنے گناہوں سے داغدار بنا ڈالا!۔ وہ سب تمہاری بیٹیاں تھیں!‘‘
’’بیٹیاں۔۔۔۔!؟‘‘ وہ انہماک سے بولا۔
’’نمرود! تم طاقت کے نشے میں وہ سب کچھ کر بیٹھے جو میں نے اس کہانی میں لکھا ہے! کنواری مائوں کی بددُعا سے تم ہرگز نہیں بچ پائوگے!‘‘
’’وہ ۔۔۔۔ وہ کہانی مجھے دیدو‘‘ نمرود نے سخت لہجے میں کہا۔
’’میں تمہاری آگ میں جل جائوں گا پر میرے ساتھ آگ کے شعلوں میں ہزاروں کہانیاں جنم لیں گی۔۔۔۔۔ میں جیوں گا۔۔۔ ہزاروں سال جیوں گا۔‘‘
’’کیا بکواس کررہے ہو؟‘‘ نمرود غُرایا۔
’’سچ بول رہا ہوں۔۔۔ ہزاروں سال قبل اُس نمرود نے آگ جلائی تھی اور حضرتِ ابراہیمؑ کو اس میں ڈالا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ پہ تمہارے آقا کی آگ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ مجھے اس پر ایک شعر یا دآگیا۔‘‘
نارِ نمرود کو کیا گلزار تونے
دوست کو یُوں بچالیا تو نے
’’تمہارا وہ نمرود جو خود کو خدا کہتا تھا ذلیل و خوار ہوکر واصل جہنم ہوا۔۔۔ وہ نمرود تم نمرود سے زیادہ طاقتور تھا۔‘‘
’’بس۔۔۔ مجھے میری کہانی دیدو۔۔۔ پھر تم مزے چکھو گے‘‘۔ نمرود پھر چلایا۔
’’چلائو مت۔۔ تمہارا گلا خراب ہوگا۔۔۔ ڈالو مجھے آگ میں اور یاد رکھنا مجھے اُس دھرتی نے جنما ہے جہاں صدیوں پہلے لل دید دہکتی آگ میں کودی تھی اور وہ جنت کا لباس اوڑھ کر باہر آئی۔ میری رگوں میں اِسی مہان خاتون کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘
نمرود کچھ دیر میرے چہرے کو تکتا رہا۔ اسی اثنا میں بچھو اُس کے سیاہ چہرے پر نمودار ہوا۔ نمرود کے ذاتی محافظ نے بُچھو کو اُس کے چہرے سے ہٹانے کی لاکھ کوشش کی لیکن بچھو ڈنک مار کر غائب ہوا۔ نمرود خود آگ کے قریب ڈھیر ہوا۔
’’کہانی ابھی شروع ہوئی۔ بول کہانی بول‘‘
نمرود کے ذاتی محافظ کے منہ سے یہ کلمات بے اختیار نکل پڑے۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،موبائل نمبر؛9906534724