شبیر احمد
کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی و ترویج میں اس ملک اور قوم کے تعلیمی نظام کو بنیادی اور لازمی درجہ دیا جاتا ہے ۔جب ہم تعلیمی نظام کی بات کرتے ہیں تو اساتذہ ، بچوں اور والدین کے علاوہ اس میں اور بھی کئی لوگ ، ایجنسیاں یا شعبہ جات اپنےمثبت یا منفی اثرات ڈال دیتے ہیں ۔ان میں سے ایک اہم شعبہ بورڈ کا شعبہ ہے ۔جن کا کام سیشن کے آخر میں سالانہ امتحانات کو منعقد کرانا ہوتا ہے ۔یہ امتحانات محض ہمارے کشمیر میں ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ہر ریاست اور یو ۔ٹی میں ہوتے ہیں ۔مگر ہمارے یہاں تعلیمی شعبے پر بورڈ اور ان کے امتحانات اور نتائج کے طریقہ کار پر جتنے آنسو بہائے جائیں وہ کم ہیں ۔ جب تک ہمارے یہاں مارچ سیشن نہیں تھا تب تک ہمارے دسویں سے بارہویں جماعت کے سالانہ امتحانات اکتوبر کے آخر سے شروع ہوتے تھے اور دسمبر کے مہینے میں ختم ہوتے تھے اور پھر مارچ کے آخر تک نتائج سنائے جاتے تھے یعنی چھ مہینے امتحانات اور نتائج کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے ۔اب جب سے مارچ سیشن شروع ہوا تو دسمبر کے مہینے میں چونکہ یہاں سردی کی شدت کو دیکھتے ہوئے سرمائی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ بچے گھر پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور پھر مارچ سے امتحانات شروع ہوکر اپریل کے آخر تک چلتے ہیں، اس کے بعد جون کے پہلے ایک دو ہفتوں تک نتائج آنے کی افواہیں اُڑتی ہیں اور جون کے آخر تک اللہ اللہ کرکے نتائج سامنے آتے ہیں ۔غرض چھ سات مہینے ان ہی امتحانات اور نتائج کی نذر ہوجاتے ہیں ۔یوں تو کہنے کو پروویزنل ایڈمشن کی رٹ لگائی جاتی ہے مگر ظاہر سی بات ہے جب تک پچھلے کلاس کے رزلٹ نہیں آتے ہیں، تب تک اکثر بچوں میں نئے کلاس کا وہ ولولہ اور شوق دکھائی نہیں دیتا ہے ۔
اب جہاں تک بورڈ کی آمدنی کا سوال ہے ۔ان امتحانات کے نام پر کروڑوں میں وصولی ہوتی ہے ۔دسویں جماعت کی سالانہ امتحانی فیس گیارہ سو کے حساب سے لی جاتی ہے ۔اب اگر ڈیڑھ لاکھ بچے امتحان میں شامل ہوتے ہوں تو یہ رقم 165000000 اس کے علاوہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے بچوں سے تیرہ سو تیس روپے بطور امتحان فیس لی جاتی ہے ۔آپ خود کلکولیٹر سے حساب لگاکر دیکھئے، اگر دو لاکھ امیدوار امتحان میں شامل ہوتے ہیں تو یہ کتنی رقم بنتی ہے ۔اس کے بعد ذرا اِس بات پر بھی غور فرمائیں کہ ان امتحانات پر بورڈ حکام کا خرچہ کیا آتا ہے ۔فی سینٹر میں وہ امتحانی عملے کو تین یا چار ہزار روپے دے کر کام نپٹا دیتے ہیں، پھر مارکنگ اور امتحانی و جوابی پرچوں پر کتنا خرچہ آتا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ان امتحانات میں ہمارے بچوں کو بورڈ کی طرف سے کوئی بھی سہولت نہیں ملتی ہے ۔ اب اس پر بھی اگر ڈیڑھ ڈیڑھ مہینے تک بچوں کے امتحانات لئے جائیں اور پھر دو ڈھائی مہینوں کے بعد بھی نتائج نہیں آتے ہیں توپھر ایک افسوس تو بنتا ہے ۔ اتنی رقم میں اگر یہ لوگ چاہیں تو اپنے بل بوتے پر سنٹر قائم کرکے ۔انہیں ہر طرح کی سہولت مہیا کر سکتے ہیں ۔یہ اگر چاہیں تو پندرہ دنوں کے اندر اندر نتائج تیار کرا سکتے ہیں ۔مگر یہاں وہی باوائے آدم کا طریقہ کار اپنا کر بچوں کا ہاف سیشن یوں ہی امتحانات سے لے کر رزلٹ تک ناقص اور غلط حکمت عملی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے ۔آخر اس کے پیچھے کون سے وجوہات کارفرما ہیں ؟ کیا اس ناقص امتحانی اور نتائج کی پالیسی سے پورے تعلیمی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہورہے ہیں؟ کیا یہ سوالات جواب طلب نہیں ہیں؟ آخر کیوں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے؟ آخر کب تک اس پر چپ سادھی جائے گی؟
( رابطہ ۔ 7889894120)
[email protected]