یو این آئی
ڈھاکہ//بنگلہ دیش میں ایک ماہ سے زائد جاری رہنے والی شورش حسینہ واجد کے مستعفی ہونے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد اب تھم گئی ہے اور ملک میں نظام زندگی معمول پر آنے لگے ہیں۔عبوری حکومت کے نظام حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی ملک کے سرکاری ونجی ادارے ، تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں اور بازاروں کی رونقیں بھی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں ہونے کے ساتھ ہی ٹریفک اہلکاروں نے بھی اپنی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔بنگلہ دیش میں 16 جولائی سے 6 اگست تک تقریباً چار ہفتوں میں کوٹہ اصلاحات کی تحریک اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں میں 42 پولیس افسران سمیت کم از کم 580 افراد ہلاک ہو گئے ۔کوٹہ اصلاحات کی مہم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں 16 جولائی سے 6 اگست کے درمیان 542 اموات ہوئیں۔ ان میں سے 216 اموات 16 جولائی سے 3 اگست کے درمیان ہوئیں جبکہ باقی 326 اموات 4 سے 6 اگست کے درمیان ہوئیں۔طلباء کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کی وجہ سے شیخ حسینہ نے 5 اگست کو وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ملک چھوڑ کر ہندوستان چلی گئیں۔ اس کے بعد 8 اگست کو نوبل انعام یافتہڈاکٹر محمد یونس نے عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔4 سے 6 اگست کے درمیان ملک میں عوامی لیگ، جوبو لیگ، سوچھ سیبک لیگ اور چھاترا لیگ کے کم از کم 87 رہنما اور کارکن مارے گئے ۔ کم از کم 36 پولیس اہلکار متاثرین میں شامل ہیں۔انسپکٹر جنرل آف پولیس معین الاسلام نے اتوار کو تصدیق کی کہ 16 جولائی سے 6 اگست کے درمیان 42 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ۔عوامی لیگ کے رہنماؤں کو 4 اگست کو ڈھاکہ اور دیگر مقامات پر آتشیں اور مقامی طور پر حاصل کیے گئے ہتھیاروں سے مظاہرین پر حملہ کرتے دیکھا گیا۔ اس دن ملک بھر میں کم از کم 111 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ ان میں سے کم از کم 27 عوامی لیگ کے ارکان تھے ۔ مدھابادی، نرسنگڈی میں عوامی لیگ کی ریلی کے دوران مظاہرین کو گولی مار دی گئی۔ مظاہرین نے عوامی لیگ کے ارکان کا پیچھا کیا اور ان میں سے چھ کو ہلاک کر دیا جن میں چاردیگھلدی یونین پریشد کے صدر دلاور حسین بھی شامل تھے ۔5 اگست کو محترمہ حسینہ کے ملک چھوڑنے کے بعد عوامی لیگ کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں پر حملہ کیا گیا اور ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ اگلے دن تشدد پھر سے شروع ہوا جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ۔ 5 اگست کو 108 اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں سے 49 عوامی لیگ کے ارکان تھے ۔ 6 اگست کو پارٹی کے 11 افراد سمیت 107 لوگ مارے گئے ۔لیفٹ لیگ کے سابق ایم ایل اے اور سابق وزیر منصوبہ بندی ایم اے منان نے فون پر پرتھم آیلو کو بتایا، “طلباء، سیاست دانوں، کارکنوں اور عام لوگوں کے قتل نے مجھے ایک شہری کے طور پر بہت دکھ پہنچایا ہے ۔”
“سیاسی جماعتوں کو سیاست کے مستقبل کی خاطر تشدد سے بچنے کے لیے سمجھوتہ کرنا چاہیے ۔”
عبوری حکومت کے سربراہ کا قافلہ ٹریفک جام میں پھنس گیا
عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک
ڈھاکہ// حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کا قافلہ ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ ڈھاکہ میں عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس کا قافلہ ٹریفک جام میں پھنس گیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر یونس کا قافلہ ٹریفک جام میں پھنسا ہوا ہے جب کہ اس موقع پر چیف ایڈوائزر کی ذاتی سیکیورٹی ٹیم کے اہلکار ان کی گاڑی کے اردگرد کھڑے ہوئے ہیں۔اس موقع پر لوگوں کی بڑی تعداد بھی وہاں جمع ہوگئی جب کہ اسپیشل سیکیورٹی فورس کے افسرلاؤڈ اسپیکر پرلوگوں کوگاڑی کے قریب نہ آنے کی ہدایت کرتے رہے ۔واضح رہے کہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو بنگلہ دیش میں انقلابی تحریک چلانے والے طلبہ رہنماؤں کے مطالبے پر عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور انہوں نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد وی وی آئی پی موومنٹ پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا تھا۔
حسینہ واجد کی جماعت پر پابندی کا ارادہ نہیں: وزیر داخلہ
ڈھاکہ/عظمیٰ مانیٹرنگ ڈیسک/ بنگلہ دیش کے نئے وزیر داخلہ سخاوت حسین کہا ہے کہ ملک کو چلانے والی عبوری حکومت کا سبکدوش وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ سخاوت حسین نے بتایا کہ پارٹی نے بنگلہ دیش کے لیے بہت کام کیا ہے ، ہم اس سے انکار نہیں کرتے ۔انہوں نے حسین نے صحافیوں کو کہ جب بھی الیکشن ہوں گے تو انہیں الیکشن لڑنا چاہیے ۔واضح رہے کہ گزشتہ روز بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں پوسٹل، ٹیلی کمیونی کیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر اور اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن (ایس اے ڈی) کے مرکزی رہنما ناہد اسلام نے کہا تھا کہ شیخ حسینہ واجد وطن واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔علاوہ ازیں 11 اگست کو بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کی وجہ سے مستعفیٰ ہونے والی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے امریکا پر اپنی حکومت گرانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اقتدار سے اس لیے نکالا گیا کیوں کہ میں نے امریکا کو سینٹ مارٹن کے جزیرے پر کنٹرول دینے سے انکار کردیا تھا۔